بلاگ
Time 14 ستمبر ، 2023

چیئرمین بلاول اور پاکستان پیپلزپارٹی کا تاریخی دوراہا

پاکستان پیپلزپارٹی کے بارے میں موجودہ دورمیں ایک عام تاثر یہ ہے کہ وہ پارٹی جو کبھی عام آدمی کی پارٹی کہلاتی تھی وہ اس وقت جاگیرداروں، وڈیروں، مخدوموں اورگدی نشینوں کی آماجگاہ بن چکی ہے۔ 

بلکہ پورا سچ تو یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد اور اتحادی حکومت کا حصہ بننے کے بعد زیادہ تر عوامی حلقوں میں یہ سوچ سرایت کر گئی ہےکہ پیپلزپارٹی گویا اب وڈیرا سیاسی اسٹیٹس کو کے لیے آخری پناہ گاہ کے طورپر کام کر رہی ہے۔ ایک سوال اکثر ذہن میں آتا تھا کہ آصف علی زرداری کی سیاست میں ایسا کیا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے پیپلزپارٹی آہستہ آہستہ ڈرائنگ روم کی طرف جا رہی ہے جوڈرائنگ روم حقیقت میں اس کی طبعی موت کی جگہ ہے، وہ سوال اب سمجھ میں آتا ہے کہ پیپلزپارٹی نے مفاہمت کے سیاسی کھیلوں میں اپنی سیاسی اور جمہوری روح کو کھو دیا ہے جس کے لیے وہ عوام اور جمہوری حلقوں میں مشہور تھی۔

اگر اس بات کا دوسرا پہلو دیکھا جائے تو جاننے کو ملتا ہے کہ بی بی شہید کی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی ایک عوامی قیادت سے محروم ہو چکی تھی، آصف علی زرداری کو وقت چاہیے تھا جب تک بلاول اس قابل نہیں ہو جاتے کہ پارٹی کے امور کو دیکھ سکیں، اس دوران صدر زرداری نے گٹھ جوڑاور مفاہمت سے اشتراکی سیاست سے ملک کی اکائیوں اور پارلیمنٹ کی مضبوطی کے لیے کام بھی کیا ور ساتھ میں پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت کی اگلی نسل میں منتقلی کے مناسب وقت کا انتظاربھی کرتے رہے۔ 

جس طرح ہرنظریے، حکمت عملی اورپروجیکٹ ایک طبعی موت ہوتی ہے اسی طرح پاکستان پیپلزپارٹی کی اس قلیل المدت سیاسی انتظام کی اب موت ہو چکی ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی بی بی کی شہدت کے بعد کی ایڈہاک پالیسی کے دورمیں پیپلزپارٹی کی نظریے اور مذاحمت کی سیاست کا جادوعمران خان کی تحریک انصاف لے اڑی ہے۔ مگر پیپلزپارٹی کو ایسی صورتحال کا کوئی پہلی دفعہ سامنا نہیں کرنا پڑرہا۔

قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹوکی شہادت کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی عوامی قیادت سے محروم ہو گئی تھی، میرمرتضی اور شاہ نوازمارشل لاء اور بدترین آمریت کے خلاف مزاحمتی کوششوں میں دوسری طرف مصروف ہو گئے، محترمہ بے نظیر بھٹو مقدمات کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی والدہ محترمہ نصرت بھٹوکے ساتھ ملکر پارٹی کے امور بھی دیکھا کرتی تھیں۔

 بی بی شہید نے پارٹی کی باقاعدہ قیادت اس وقت سنبھالنے کا فیصلہ کیا جب جلاوطنی سے واپسی پر باقاعدہ اپنی عملی سیاست کا آغاز کیا، انہوں نے اپنی پارٹی کے معاملات سے اپنی والدہ کوالگ کر کے خود کو عوام اور تازہ سیاسی ہوا کے دوش پے ڈال دیا۔ اس وقت بے نظیربھٹو کی پیپلزپارٹی کو انہیں مسائل کا سامنا تھا جو1988 میں بھٹوکی پیپلزپارٹی کوتھا اور پاکستان پیپلزپارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹوزرداری کو اپنے والد آصف علی زرداری کی سیاست کے اثر سے نکال کر عوام میں جانا ہوگا جوبطور چئیرمین پاکستان پیپلزپارٹی ان کا حقیقی مینڈیٹ ہے۔

محترمہ بے نظیربھٹونے سب سے پہلے پارٹی کی قیادت اپنی والدہ سے لیکرخود سنبھال لی اور پارٹی کے امور چلانے کے لیے خود اپنی سیاسی حکمت عملی بنائی۔ بی بی شہید نے پارٹی کے اندر اصلاحات کیں اور پارٹی کو جاگیرداروں اور وڈیروں کے چنگل سے نکال کر ایک بار عوام میں لیجانے کا فیصلہ کیا۔ اس کام میں بی بی شہید کو سب سے بڑی دشواری کا سامنا ان انکلز سے تھا جو عرصہ دراز سے پیپلزپارٹی میں بھٹو صاحب کے دور سے موجود تھے۔ بی بی نے نہایت ہوشیاری اورسیاسی بصیرت سے پارٹی کے تمام اموراپنے ہاتھ میں لیے اور انکلزسے حصار کو توڑ کر عوام میں لوٹ گئیں جہاں پہ بھٹوصاحب 1979 سے ہمیشہ کے لیے رہ گئے تھے۔

تاریخ کا دلچسپ دوراہا ہے کہ نوجوان لیڈربلاول کوبھی اس وقت اسی کی طرح کی صورتحال کا سامنا ہے، ان کے ارد گرد وہ تمام انکلز ہیں جو بی بی شہید کے دور سے پاکستان پیپلزپارٹی میں کام کر رہے ہیں۔

 انقلابی اور مزاحمت کی سیاست میں انکلزکے کرداروں کواس لیے ایک مناسب حد تک رکھا جاتا ہے کہ تازہ ہوا نہیں چلنے دیتے، نئے نظریات کومٹی پاوًاورمفاہمت کی نظرکر دیتے ہیں اس سے اسٹیٹس کو تواپنا وجود برقراررکھتا ہے مگرنئی سیاسی اور عوامی سوچ نہیں پنپ پاتی۔ 

برطانوی مصنف جارج برنارڈ شاہ نے کہا تھا کہ جو بیس سال والے زندگی کے دور میں سوشلسٹ نہ ہو اس کے پاس دل نہیں ہے اور جو چالیس کی عمر تک سوشلسٹ رہے، اس کے پاس دماغ نہیں ہے۔ جب سیاسی انقلاب کو عوام میں لیجانے کی ضرورت ہو تو دل کا کام دماغ سے زیادہ موثراور کارآمد ہوتا ہے کیوں کہ انسانی جوش اور ولولے کے لیے دل دماغ پر برتری رکھتا ہے اورجب آپ دورحاضرکے سیاسی نوجوان سے مخاطب ہوں تو یہ مظہراور ناگزیرہوجاتا ہے جو عمران خان کی تحریک انصاف میں واضح نظر آتا ہے۔

 چیئرمین بلاول کے اردگرد موجود انکلز اعلی درجے کے شریف انفس، دانشور اور وفادار لوگ ہیں مگراب ان کا مال مارکیٹ میں اٹھانے والا کوئی نہیں ہے، سوشل میڈیا اورٹیکنالوجیکل گلوبلائزیشن کے اس دور میں جہاں پرآپ کے ملک کا 60 فیصد سے زیادہ ووٹرنوجوان طبقہ ہے جو لمحہ لمحہ پرانی چیزوں کو متروک کرتا جا رہا ہے۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ اس برق رفتارسائنسی تبدیلی اورسوشل میدیا کی تیزی کے پاکستان کے نوجوان کی زندگی پر کیا ااثرات ہیں مگر یہ ایک سیاسی حقیت ہے کہ پاکستان کا نوجوان اب اسی مائنڈ سیٹ کو فالو کر رہا ہے اور وہ اس میں رہتے ہوئے ہی بات سننا اورماننا چاہتا ہے۔

موجودہ دورمیں پاکستان پیپلزپارٹی اور چئیرمین بلاول کوعوام بلخصوص پنجاب کی نوجوان

عوام اپنانے سے گریزاں ہے بلکہ زیادہ تر نوجوان تواس خیال کوبھی کافی شدت سے رد کرتے ہیں۔ اس کی وجہ پیپلزپارٹی کے روایتی، موروثی اوراسٹیٹس کو کی پارٹی ہونے کا تاثرہےجوبی بی کی شہادت کے بعد والے دور میں پیدا اور جو کافی حد تک پراپوگنڈے اور کینہ زرداری پر بھی مشتمل ہے مگر اس کا اثر تب زائل ہو گا جب چیئرمین بلاول اپنی والدہ کی طرح موروثی اوررسمی سیاست کے بت توڑکر نوجوان نسل کے مائنڈ سیٹ میں سرایت کریں گے۔ بے نظیر بھٹونے عوام کے ساتھ نامیاتی رابطہ قائم کیا، اسلامی دنیا کی پہلی منتخب وزیراعظم بننے کے ساتھ دخترمشرق بننے کے بعد بھٹوصاحب کو مزید امر کر گئیں۔ سیانے کہتے ہیں کہ باپ کا بڑا نام ہو تو بیٹے کے لیے نام بنانا مشکل ہو جاتا مگر یہاں ایک بیٹی نے اپنی خود شناخت بنائی اوربہت سے سیاسی او غیرسیاسی معاملات میں بھٹو صاحب سے بھی قد آور ہو گئیں۔ کیا نوجوان چیئرمین بلاول اپنی والدہ کی طرح عوام میں جا پائیں گے اور کیا وہ اپنے خاندانی سیاسی میراث سے نکل کرایک خود مختار سیاسی رہنما بن پائیں گے اورکیا وہ اس عوام تک پہنچ پائیں گے جہاں قائد عوام بننے کی کاریگری سکھائی جاتی ہے، مگرفیض صاحب کہہ رہے ہیں کہ۔۔۔

ہم دیکھیں گے

لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے

جب ارض خدا کے کعبہ سے

سب بت اٹھوائے جائیں گے


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔