Time 28 ستمبر ، 2023
پاکستان

’سب اتنا ڈرے ہوئے کیوں ہیں‘؟ سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا کیس میں عملدرآمد سے متعلق رپورٹ طلب کرلی

آرکیسٹرا میں سب میوزک بجاتے ہیں اور سامنے ایک ڈنڈا لیے کمانڈ دے رہا ہوتا ہے، کیا الیکشن کمیشن تب کنٹرول ہورہا تھا اب ہورہا ہے یا ہمیشہ سے ہوتا آیا؟ چیف جسٹس/ اسکرین گریب
 آرکیسٹرا میں سب میوزک بجاتے ہیں اور سامنے ایک ڈنڈا لیے کمانڈ دے رہا ہوتا ہے، کیا الیکشن کمیشن تب کنٹرول ہورہا تھا اب ہورہا ہے یا ہمیشہ سے ہوتا آیا؟ چیف جسٹس/ اسکرین گریب

اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس میں کیس کے فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عمل کیوں نہیں ہوا؟ سب اتنا ڈرے ہوئے کیوں ہیں؟ 

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل تین رکنی بینچ فیض آباد  دھرنا نظر ثانی کیس کی سماعت کررہا ہے۔

تاہم اس سے قبل ہی فریقین نے نظر ثانی درخواستیں واپس لے لیں۔

پیمرا اور انٹیلی جنس بیورو کے بعد اب وفاق نے بھی نظرثانی درخواست واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے جس کی تصدیق اٹارنی جنرل نے کی۔

وفاق نے بذریعہ وزارت دفاع نظرثانی درخواست دائر کی تھی تاہم اب اٹارنی جنرل عثمان منصور نے کہا ہے کہ فیض آباد دھرنا نظرثانی درخواست واپس لے رہے ہیں۔

سماعت کا احوال

سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاق اس کیس میں دفاع نہیں کرنا چاہتا، اس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ اب کیوں کیس واپس لینا چاہتے ہیں؟ پہلے کہا گیا فیصلے میں غلطیاں ہیں، اب واپس لینے کی وجوہات تو بتائیں۔

فیصلے پر نظرثانی اپیل جب دائر کی گئی اس وقت حکومت اور تھی: اٹارنی جنرل

اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ نظرثانی اپیل جب دائر کی گئی اس وقت حکومت اور تھی، چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ نے تحریری درخواست کیوں دائرنہیں کی؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میں اپنا بیان دے رہا ہوں۔

دوران سماعت پیمرا کے وکیل حافظ احسان نے بھی عدالت کو بتایا کہ میں بھی اپنی نظرثانی اپیل واپس لے رہا ہوں، اس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کس کی ہدایات پر واپس لے رہے ہیں؟

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پہلے کچھ باتوں کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں، یہ ریگولربینچ ہے خصوصی بینچ نہیں، نظرثانی درخواستیں فوری مقرر ہوتی ہیں مگر یہ 4 سال مقررنہ ہوئیں، فیصلہ دینے والے ایک جج ریٹائرڈ ہوچکے اس لیے اُس بینچ کے سامنےکیس نہیں لگا۔

پی ٹی آئی کی بھی درخواست واپس لینے کی استدعا

سماعت کے دوران پی ٹی آئی نے بھی درخواست واپس لینے کی استدعا کی اور وکیل علی ظفر نے کہا کہ ہم پی ٹی آئی کی درخواست کی پیروی نہیں کرنا چاہتے، اس پر چیف جسٹس نے علی ظفر سے سوال کیا کہ کیا آپ کو درخواست واپس لینے کا اختیار ہے؟ اگر آپ فریق بننا چاہتے ہیں تو عدالت آپ کو اجازت دے گی، علی ظفر نے جواب دیا کہ نہیں ہم اس کیس میں فریق نہیں بننا چاہتے۔

 پہلے کہا گیا تھا فیصلہ غلطیوں سے بھرا پڑا ہے، اب کیا فیصلے میں غلطیاں ختم ہوگئیں؟ چیف جسٹس 

دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے فیض آباد دھرنے کے فیصلے پر عملدرآمد سے متعلق سوالات اٹھادیے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے کہا گیا تھا فیصلہ غلطیوں سے بھرا پڑا ہے، اب کیا فیصلے میں غلطیاں ختم ہوگئیں؟ کیا نظرثانی درخواستیں واپس لینے کی کوئی وجہ ہے؟ جو اتھارٹی میں رہ چکے وہ ٹی وی اور یوٹیوب پرتقاریرکرتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ ہمیں سنا نہیں گیا، اب ہم سننے کیلئے بیٹھے ہیں، آکربتائیں، ہم یہ درخواستیں زیر التوا رکھ لیتے ہیں،کسی نے کچھ کہنا ہے تو تحریری طورپرکہے، آپ طویل پروگرام کرلیں مگر ہر ادارے کو تباہ نہ کریں، یہاں آپ خاموش ہیں اور ٹی وی پر کہیں گے کہ ہمیں سنا نہیں گیا، ہم پیمرا کی درخواست زیرالتو رکھیں گے،کل کوئی یہ نہ کہے ہمیں سنا نہیں گیا، سوال تو اٹھتا ہے کہ فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پرعمل کیوں نہیں ہوا؟ آخر سب اتنے ڈرے کیوں ہوئے ہیں؟

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ان فضول قسم کی درخواستوں پراٹارنی جنرل پرجرمانہ عائد کرنا چاہیے۔

کیا الیکشن کمیشن تب کنٹرول ہورہا تھا اب ہورہا ہے یا ہمیشہ سے ہوتا آیا؟
چیف جسٹس پاکستان

دوران سماعت الیکشن کمیشن کے وکیل قمر افضل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نظرثانی واپس لے رہی ہے، اس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن تب ٹھیک تھا یا اب ہے؟ کیا کوئی کنڈکٹر تھا جو یہ سب کرا رہا تھا؟ الیکشن کمیشن نے تب کس کے کہنے پر نظرثانی دائرکی؟ آرکیسٹرا میں سب میوزک بجاتے ہیں اور سامنے ایک ڈنڈا لیے کمانڈ دے رہا ہوتا ہے، کیا الیکشن کمیشن تب کنٹرول ہورہا تھا اب ہورہا ہے یا ہمیشہ سے ہوتا آیا؟

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیےکہ پاکستان میں وہ چلتا ہے جو پوری دنیا میں نہیں ہوتا، پاکستان میں کہا جاتا ہے کہ ’حکم اوپر سے آیا ہے‘، نعوذ باللہ اوپرسے حکم اللہ کا نہیں یہاں کسی اورکا ہوتا ہے، نبی کریم نے بھی جھوٹ سے منع کیا ہے، جو ہوا اس کا اعتراف تو کرلیں، جزا سزا بعد میں ہوگی، اعتراف جرم تو کریں، مان لیں کہ الیکشن کمیشن کو اس وقت فرد واحد کے حوالے کیا گیا تھا، آج الیکشن کمیشن آزاد ہوگیا ہے، ہمت ہے تو کہیں تب کون سب کچھ کنٹرول کر رہا تھا، پورے پاکستان کو منجمد کیا گیا، خادم رضوی مرحوم نے تو تسلیم کیا، آپ لوگ تو وہاں تک پہنچ بھی نہیں سکتے، کس کا ڈر ہے؟ اوپر والے کا تو نہیں ہے آخر کس سے ڈرتے ہیں؟ ٹی وی پر جاکر بھی تقریریں کریں گے تو عدالت کو ہی سچ بتادیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ بتائیں کیا معاملہ تھا آخر2017 میں؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ کا فیصلہ تمام حقائق بیان کررہا ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جب فیصلہ درست ہے تو نظرثانی میں کیوں آئے؟ کون سا نقص تھا جو تب فیصلے میں تھا اور اب نہیں ہے؟

یہاں جو بھی ہو کہا جاتا ہے ’مٹی پاؤ’، لوگ مرجائیں مٹی پاؤ: جسٹس قاضی فائز

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ کراچی میں 55 لوگ مرگئے،کوئی ایکشن نہیں ہوا، یہاں جو بھی ہو کہا جاتا ہے ’مٹی پاؤ’، لوگ مرجائیں مٹی پاؤ، حضرت عمر نے کہا کہ دریا کے کنارے کتا بھی بھوکا مرجائے تو میں جوابدہ ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جتھے کی طاقت کی نفی نہیں کی گئی، وہ آج بھی غالب ہے، سبق نہیں سیکھا ہم نے، جن صاحب کو بہت جمہوریت چاہیے تھی وہ کینیڈا سے واپس کیوں نہیں آتے؟ پارلیمنٹ میں بحث نہیں ہورہی، اسلامی جمہوریہ پاکستان تو غلطیاں بھی تسلیم نہیں کرتا، مجھ سمیت احتساب سب کا ہونا چاہیے، احتساب سے کسی کو انکارنہیں ہونا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب یہ سوال کیوں نہیں اٹھایا کہ نظرثانی درخواستیں پہلے کیوں نہ لگیں؟ یہ کہنا ٹھیک نہیں ہوتا نئی حکومت یا پرانی حکومت، حکومت حکومت ہی رہتی ہے پارٹی جو بھی ہو، سپریم کورٹ بھی وہی رہتی ہے جج چاہے کوئی بھی ہو۔

جسٹس قاضی فائز کا کہنا تھا کہ عدالتوں کواپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، اس دھرنے کے بعد کئی اور ایسے ہی واقعات سامنے آئے، اگر اُس وقت اس فیصلہ پر عمل ہوتا تو بعد میں سنگین واقعات نہ ہوتے، اللہ نے سورۃ توبہ کی آیت 19 میں سچے لوگوں کا ساتھ دینے کا کہا، آپ لوگوں نے فیصلے کو آج سچ مان لیا، اب آپ کا امتحان ہےکہ آپ ساتھ دیتے ہیں یا نہیں۔

عدالتوں کواپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے: عدالت

چیف جسٹس نے کہا کہ دیکھنا ہوگا کہ لائیو یہ کیس نشر ہوسکتا ہے یا نہیں، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سنا ہے کہ پبلک نے سپریم کورٹ کی براہ راست نشریات کو پاک بھارت میچ سے زیادہ انجوائے کیا، چیف جسٹس نے جواب دیا کہ انصاف تو ہوتا ہوا دکھنا چاہیے۔

اس دوران اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو فیض آباد دھرنا کیس فیصلے پرعملدرآمد کی یقین دہانی کرتے ہوئے کہا کہ کیس کے فیصلے پر عملدرآمد کریں گے لیکن عدالت وقت دے دے۔

بعد ازاں عدالت نے نظرثانی درخواستوں پر سماعت یکم نومبر تک ملتوی کرتے ہوئے فریقین کو 27 اکتوبر تک جواب جمع کرانے کی ہدایت کردی۔

واضح رہےکہ پی ٹی آئی، الیکشن کمیشن، اعجازالحق اور ایم کیو ایم نے فیض آباد دھرنا فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواستیں دائر کر رکھی ہیں جب کہ شیخ رشید کے وکیل نے مقدمے میں التوا کی درخواست دائر کررکھی ہے۔

مزید خبریں :