ایڑی میں اکثر درد کا سامنا ہوتا ہے؟ تو اس کی وجہ جان لیں

ایڑی میں تکلیف بہت عام مسئلہ ہے / فائل فوٹو
ایڑی میں تکلیف بہت عام مسئلہ ہے / فائل فوٹو

ایڑی میں درد پیروں کا سب سے عام مسئلہ ہے۔

عام طور پر یہ درد ایڑی کے اندر یا اس کے پیچھے ہوتا ہے جہاں پنڈلی سے ایڑی تک آنے والا طاقتور پٹھا ایڑی کی ہڈی سے جڑتا ہے، کئی بار یہ درد ایڑی کے سائیڈ میں بھی محسوس ہوتا ہے۔

ہمارے پیر میں 26 ہڈیاں، 33 جوڑ اور 100 سے زائد پٹھے ہوتے ہیں اور ایڑی پیر کی سب سے بڑی ہڈی ہے۔

اگر آپ ایڑیوں کو بہت زیادہ استعمال کریں یا اس کو چوٹ لگ جائے تو پھر درد ہو سکتا ہے جس کی شدت معمولی سے لے کر بدترین ہو سکتی ہے۔

ایڑی میں تکلیف کی عام وجوہات

ایڑھی میں تکلیف کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں جیسے Plantar fasciitis۔

اس مسئلے میں پیر پر بہت زیادہ دباؤ کے باعث پیر اور ایڑی کو جوڑنے والی جگہ کو نقصان پہنچتا ہے جس سے تکلیف کا سامنا ہوتا ہے۔

اسی طرح کسی جسمانی سرگرمی کے دوران ایڑی کو چوٹ لگ سکتی ہے جس سے تکلیف کا سامنا ہوتا ہے۔

ایک اور مسئلہ Achilles tendonitis ہے جس کے دوران پنڈلی کے مسلز کو ایڑی سے منسلک کرنے والا پٹھا ورم یا کسی انجری کا شکار ہو جاتا ہے۔

جوڑوں کے امراض بھی کئی بار ایڑی میں تکلیف کا باعث بنتے ہیں جبکہ موچ آنے سے بھی ایسا ہوتا ہے۔

ڈاکٹر سے کب رجوع کرنا چاہیے؟

اگر ایڑی میں تکلیف بہت شدید ہو، اچانک اس کا سامنا ہوا ہو، متاثرہ حصہ سرخ ہوگیا ہو یا سوج گیا ہو، چلنا پھرنا مشکل ہوگیا ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔

اسی طرح اگر ایڑی میں درد 2 سے 3 ہفتوں میں بہتر نہ ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔

گھر میں رہتے درد کیسے کم کریں؟

اگر ایڑی میں درد ہے تو کچھ طریقوں سے آپ اسے کم کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں، جو درج ذیل ہیں:

جتنا ہوسکے آرام کریں۔

روزانہ 2 بار 10 سے 15 منٹ کے لیے برف سے ٹکور کریں۔

عام درد کش ادویات کا استعمال کریں۔

ایسے جوتے پہنیں جو زیادہ ٹائٹ نہ ہوں۔

ایڑی کو زمین پر رکھنے کی بجائے اوپر اٹھا کر رکھیں۔

اس تکلیف سے بچنا کیسے ممکن ہے؟

چند آسان نکات پر عمل کرکے اس مسئلے سے بچنا ممکن ہے۔

ایسے جوتوں کا استعمال کریں جو بہت زیادہ ٹائٹ نہ ہوں۔

جسمانی سرگرمیوں کے لیے درست جوتو ں کا انتخاب کریں۔

صحت بخش غذا کا استعمال کریں۔

جب پیر تھکاوٹ کا شکار ہو تو آرام کریں۔

جسمانی وزن کو صحت مند سطح پر رکھیں۔

جسمانی سرگرمیوں کے دوران رفتار تیز رکھیں۔

نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔

مزید خبریں :