پاکستان

اپنی نسلوں کو غلط اور صحیح کا بتانا چاہیے، کچھ نہیں کرسکتے تومعافی تومانگ سکتے ہیں: چیف جسٹس

سپریم کورٹ نے سنگین غداری کیس میں پرویزمشرف کی سزا کیخلاف اپیلوں کی سماعت آئندہ سال 10 جنوری تک ملتوی کر دی— فوٹو:فائل
سپریم کورٹ نے سنگین غداری کیس میں پرویزمشرف کی سزا کیخلاف اپیلوں کی سماعت آئندہ سال 10 جنوری تک ملتوی کر دی— فوٹو:فائل

سپریم کورٹ میں سنگین غداری کیس میں پرویزمشرف کی سزا کیخلاف اپیلوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کمرہ عدالت میں مارشل لا کو جائز قرار دینے والے ججز کی تصاویرکیوں آویزاں ہیں؟ ہمیں اپنی نسلوں کو غلط اور صحیح کا بتانا چاہیے، ہمیں غلطیوں کا ادراک کرنا چاہیے، کچھ نہیں کرسکتے تومعافی تو مانگ سکتے ہیں۔

سپریم کورٹ میں مشرف سنگین غداری کیس میں سزا سنانے والی خصوصی عدالت، سزا کو کالعدم قرار دیے جانے کے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے اور سزا کے خلاف اپیلوں کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ ، جسٹس امین الدین اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل چار رکنی بینچ نے کی۔

سینیئر ایڈووکیٹ حامد خان ، رشید اے رضوی،حافظ عبدالرحمان انصاری اور پاکستان بار کونسل کے وکلاء حسن رضا پاشاہ نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ لاہور ہائیکورٹ کو خصوصی عدالت کے حوالے سے اختیار سماعت ہی نہیں تھا۔

حامد خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ جب 2019 میں ہائی کورٹ میں اختیار سماعت نہ ہونے کے باوجود سماعت ہو رہی تھی تو درخواست گزار وکلا، جواب گزار حکومت اور عدالتی معاون سب ایک صفحہ پر تھے۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ اس وقت حکومت کس کی تھی؟ پاکستان بار کے وکیل حسن پاشا نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت تھی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کسی سیاسی حکومت کی ایسی کیا سیاسی مجبوری ہو سکتی ہے کہ وہ آئین شکنی کی مخالفت بھی نہ کرے؟  جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ حامد خان آپ نے کہا سب ایک پیج پر تھے ، پیج کیا تھا یعنی حکومت خواہ کوئی بھی ہو صفحہ ایک ہی ہوتا ہے۔

سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ اگر عدالت پرویز مشرف کی سزا کا فیصلہ برقرار رکھے تو اس کا پینشن سمیت مراعات اور ایوارڈ ز پر کیا اثر ہوگا؟ آرمی ایکٹ اس حوالے سے کیا کہتا ہے؟

وکیل حامد خان نے کہاکہ پاکستان کی 75 سال کی تاریخ میں پہلی بار ڈکٹیٹر پر مقدمہ چلا،فوجی حکومتوں نے پاکستان کو بہت نقصان پہنچایا، آدھا ملک گنوادیا۔ 

جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاکہ جب غاصب طاقتور ہوتا ہے تو کچھ نہیں کہتے، جب غاصب کمزور ہوجائے توپھرہم عاصمہ جیلانی کیس میں سب کچھ کہہ دیتے ہیں، بطور عدلیہ ہمیں بھی اپنی غلطیاں تسلیم کرنی چاہئیں۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ کمرہ عدالت میں مارشل لا کو جائز قرار دینے والے ججز کی تصاویرکیوں آویزاں ہیں؟ ہمیں اپنی نسلوں کو غلط اور صحیح کا بتانا چاہیے، ہمیں غلطیوں کا ادراک کرنا چاہیے، کچھ نہیں کرسکتے تومعافی تومانگ سکتے ہیں۔

وفاق کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے عدالت کے استفسار پر کہا کہ وہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپورٹ نہیں کرتے بلکہ اس فیصلے میں جس سپریم کورٹ کے فیصلے پر انحصار کیا گیا وہ فیصلے کے برعکس ہے۔

عدالت نے پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر کی درخواست پر پرویز مشرف کے ورثا سے ہدایت لینے کے لیے مقدمے کی سماعت آئندہ سال دس جنوری تک ملتوی کر دی۔

مزید خبریں :