01 جنوری ، 2024
پاکستان کے ساحلی علاقے قدرتی خوبصورتی اور تنوع کا امتزاج ہیں۔
متعدد مقامات لوگوں کے دلوں کو چھو لیتے ہیں مگر جب دنیا کے مختلف حصوں سے پرندے ہجرت کرکے پاکستان کے ساحلی علاقوں میں پہنچتے ہیں تو وہاں کا نظارہ قابل دید ہوتا ہے۔
قدرتی جی پی ایس یا گلوبل پوزیشننگ سسٹم سے لیس یہ پرندے ہر سال ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرکے پاکستان پہنچتے ہیں۔
درحقیقت ہر سال وہ لگ بھگ ایک ہی راستے سے اپنی منزل پر پہنچتے ہیں۔
ہر سال جب موسم سرما میں دنیا کے مختلف حصوں میں درجہ حرارت گرنے سے پانی جم کر برف کی شکل اختیار کرلیتا ہے تو یہ پرندے پاکستان کا رخ کرتے ہیں۔
مگر سوال یہ ہے کہ وہ یہ کیسے جانتے ہیں کہ انہیں کہاں جانا چاہیے؟
ہجرت کے اس سالانہ سفر کے دوران یہ پرندے ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرتے ہیں۔
سندھ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کے مطابق تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ ہجرت کرنے والے یہ پرندے جینیاتی خصوصیات اور موروثی ثقافت کا استعمال اپنے والدین یا گروپ کے بڑوں سے سیکھتے ہیں۔
مگر جغرافیائی نشاناتی اور مقناطیسی لہروں کا استعمال بھی اس سفر کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے کیونکہ راستہ بھٹکنے کا انجام خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
ان پرندوں کی حیران کن نیوی گیشن صلاحیتوں کو ابھی مکمل طور پر نہیں سمجھا جاسکا ہے کیونکہ وہ سفر کے دوران متعدد اقسام کی حسوں کو ایک ساتھ استعمال کرتے ہیں۔
ماہرحیوانیات ڈاکٹر مہربان بروہی نے اس حوالے سے بتایا کہ 'یہ ہجرت گروپ کے بڑے پرندے شروع کرتے ہیں اور کم عمر پرندے ان کا پیچھا کرتے ہیں، دن میں سفر کے دوران یہ پرندے مخصوص مقامات جیسے زمین، دریا یا پہاڑوں کے ذریعے راستے کا تعین کرتے ہیں جبکہ رات کو وہ ستاروں کو استعمال کرکے آگے بڑھتے ہیں، کچھ پرندے تو دن میں سورج کی مدد بھی لیتے ہیں'۔
ایسا بھی مانا جاتا ہے کہ سونگھنے کی حس بھی پرندوں کی مخصوص اقسام جیسے پینگوئنز اورکونجوں وغیرہ کی ہجرت میں کردار ادا کرتی ہے۔
پرندے سرد ممالک میں شدید سردی کے باعث گرم مقامات کا رخ کرتے ہیں اور ایک سے دوسری جگہ پہنچنے کے لیے طویل فاصلہ طے کرتے ہیں۔
موسم بدلنے یا افزائش نسل کے دوران بھی پرندے شمال اور جنوب کے درمیان ہجرت کرتے رہتے ہیں۔
روس، سائبریا، چین اور دیگر وسطی ایشیائی ممالک سے پرندے پاکستان کا رخ کرتے ہیں کیونکہ ہمارے ملک کا پرتنوع ماحول انہیں قیام کی سہولت فراہم کرتا ہے۔
سندھ فاریسٹ اینڈ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ سے تعلق رکھنے والے جاوید مہر نے بتایا کہ انڈس فلائی وے کے ذریعے پاکستان کی جانب پرندوں کی ہجرت ایک ماحولیاتی ایونٹ ہے جو صدیوں سے ہو رہا ہے۔
ڈاکٹر مہربان علی بروہی کا کہنا تھا کہ عموماً یہ پرندے برفانی موسم اور غذا نہ ملنے کے باعث سرد شمالی خطوں سے گرم جنوبی علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔
پرندوں کے دیکھنے کے شوقین ٹھٹھہ کی کینجھر جھیل اور ہالیجی جھیل کا رخ کرتے ہیں، جہاں ہر سال ہجرت کرکے آنے والے پرندے ماحولیاتی توازن برقرار رکھنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔
فلائی ویز ایسے فضائی راستے ہیں جن سے ہجرت کرنے والے پرندے گزرتے ہیں۔
ڈاکٹر مہربان علی بروہی کے مطابق دنیا بھر میں ہجرت کرنے والے پرندے سفر کے لیے 8 فضائی راستوں کا انتخاب کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان آنے والے پرندے روٹ نمبر 4 جسے گرین روٹ یا انڈس فلائی وے بھی کہا جاتا ہے، کا انتخاب کرتے ہیں، یہ راستہ قراقرم سے جنوب میں دریائے سندھ کے طاس تک پھیلا ہوا ہے۔
انڈس فلائی وے زون وسطی ایشیائی فضائی راستہ ہے جس میں بحر ہند اور آرکٹک اوشین کے درمیان کے یور ایشیائی خطے موجود ہیں، جو پرندوں کو خوراک کے حصول اور افزائش نسل کے لیے گرم موسم فراہم کرتے ہیں۔
یہ پرندے چین، روس اور دیگر وسطی ایشیائی ممالک انڈس فلائی وے کو استعمال کرکے ساڑھے 4 ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے اگست میں پاکستان پہنچتے ہیں اور فروری میں یہاں سے واپسی کا سفر کرتے ہیں۔
جاوید مہر کے مطابق پنجاب میں راول جھیل اور سندھ میں رن آف کچھ ان پرندوں کی آمد کے مرکزی مقامات ہیں۔
موسمیاتی اثرات جیسے اچانک بارش یا برفباری انسانوں کو گھر چھوڑنے پر مجبور کر دیتے ہیں، ان پرندوں کی ہجرت پر بھی موسمیاتی تبدیلیوں سے نمایاں اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
حالیہ برسوں میں پاکستان میں ہجرت کرنے آنے والے پرندوں کی اقسام میں نمایاں کمی آئی ہے۔
کلفٹن اربن فاریسٹ کے بانی مسعود لوہار کے مطابق متعدد عناصر اس کا باعث بنے ہیں۔
زراعت کے لیے زمین کے استعمال، پرندوں کے غیر قانونی شکار اور دیگر متعدد عناصر کے باعث ان پرندوں کی پاکستان ہجرت متاثر ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں شکار کے ایسے طریقے استعمال ہورہے ہیں جن کے پورے جھنڈ کو کسی جال میں پکڑ لیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسا گزشتہ 7 سے 8 برس سے ہو رہا ہے جس کے باعث بہت کم پرندے دوبارہ یہاں واپس لوٹتے ہیں۔