07 جنوری ، 2024
اسلام آباد: اکانومسٹ کے لیے مضمون کیا عمران خان نے ہی لکھا تھا اس پر کنفیوژن ابھی موجود ہے لیکن ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا جیل کے قواعد اجازت دیتے ہیں۔
وفاقی اور پنجاب حکومتوں کا دعویٰ ہے کہ یہ گھوسٹ آرٹیکل ہے اکنامسٹ نے قارئین کو گمراہ کیا اور یہ کہ عمران خان نے ایسا کوئی آرٹیکل لکھا نہ اڈیالہ جیل سے باہر گیا جبکہ پی ٹی آئی کے سیکرٹری اطلاعات رؤف حسن کا کہنا ہے کہ یہ خط سابق وزیراعظم نے خود ہی لکھا تھا۔
عمران خان نے خواہ یہ آرٹیکل لکھا یا نہیں اس حوالے سے پنجاب کے جیل حکام تفتیش کررہے ہیں لیکن حقیقی سوال یہ ہے کہ کیا جیل کے قوانین کسی قیدی کو کسی قومی یا بین الاقوامی اشاعت میں لکھنے کامجاز ہے نہیں۔
کیا کوئی شخص جو جیل میں ہو وہ سیاست میں فعال حصہ لے سکتا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کے جیل خانہ جات کے قوانین کیا کہتے ہیں۔
دی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے نگران وزیراطلاعات مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ ’’اڈیالہ جیل حکومت پنجاب کے دائرہ کار میں آتا ہے اور اسے ہی اس معاملے کی جانچ کرنی چاہیے تاہم میراخیال ہے کہ یہ ایک ’ گھوسٹ آرٹیکل‘ ہے۔
وفاقی حکومت دی اکانومسٹ سے رابطہ کرے گی اور پوچھے گی کہ کیا عمران خان نے آرٹیکل جیل مینوئل کے مطابق لکھ کر بھجوایا لیکن جہاں تک میری معلومات ہیں عمران خان نے ایسا کوئی آرٹیکل نہیں لکھا اور یہ کہ غیر ملکی اشاعتی ادارے نے اپنے قارئین کو گمراہ کیا ہے۔ ہم اس پر کام کر رہے ہیں اور جلد ہی اکانومسٹ کو خط لکھیں گے‘‘۔
دی نیوز نے اس حوالے سے پی ٹی آئی کے سیکرٹری انفارمیشن رؤف حسن سے بھی رابطہ کیا اور پوچھا کہ کیا عمران خان نے یہ خط اکانومسٹ کو لکھا تھا یا یہ گھوسٹ آرٹیکل تھا جو کسی نے عمران خان کے نام سے لکھا۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ سیاسی لیڈرشپ میں سے کوئی بھی خواہ نواز شریف ہو یا آصف زرداری وہ عمران خان کی بصیرت کی سطح تک نہیں پہنچ سکتا۔
انہوں نے تصدیق کی کہ خط پی ٹی آئی کے چیف نے ہی لکھا تھا اور یہ کوئی گھوسٹ آرٹیکل نہیں تھا۔ 1978 کے حوالات کے قواعد 265 کے مطابق’’ اعلیٰ کلاس کے قیدیوں کو ایک ہفتہ وار ایک خط لکھنے اور ایک انٹرویو دینے کی اجازت ہوگی۔ خط اور انٹرویو باہم ایک دوسرے کی جگہ بھی لے سکتے ہیں۔
کسی ہنگائی صورت میں جیسا کہ موت یا شدید بیماری کی صورت میں قیدی کے خاندان کے لیے قوانین سپرنٹنڈنٹ کی ہدایات پر نرم کیے جا سکتے ہیں۔ کسی خاص وقت میں قیدی کو ملنے کےلیے آنے والے ملاقاتیوں کی تعداد 6 تک محدود ہوگی۔ یہی قانون قیدیوں کو سیاست سے منع بھی کرتا ہے اور انہیں کسی اشاعت میں خط لکھوانے سے منع بھی کرتا ہے۔
اس میں لکھا ہے ’’ ان انٹرویوز میں سیاسی معاملات پر گفتگو کی اجازت نہیں ہوگی۔ تمام خطوط پرائیویٹ معاملات تک محدود ہوں گے اور ان میں جیل انتظامیہ اور ڈسپلن یا دیگر قیدیوں یا سیاست کا تذکرہ نہیں ہوگا۔ جو معاملات زیربحث آئیں ان کے موضوع کی مطابقت سے قیدی کے استحقاق کو ختم یا کم کیا جاسکتا ہے۔
نوٹ: یہ خبر آج 7 جنوری 2024 کے جنگ اخبار میں شائع ہوئی ہے