بلاگ
Time 16 جنوری ، 2024

تاریخی فیصلہ، سارے پلان ناکام

انتخابی نشان کے بارے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی اپیل سپریم کورٹ آف پاکستان نے منظور کرلی اور قواعد و ضوابط کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشن نہ کرانے پر پی ٹی آئی کو انتخابی نشان ’’بلے‘‘ سے محروم ہونا پڑا۔

 اس کیس کی سپریم کورٹ میں تاریخ کی طویل ترین سماعت ہوئی۔ سب سے بہتر کام یہ ہوا کہ دو دن جاری اس سماعت کو تمام ٹی وی چینلز پر لائیو دکھایا گیا۔ معزز جج صاحبان نے کیا کیا سوالات کئے اور پی ٹی آئی کے وکلاء نے ان سوالات کے کیا جوابات دیئے یہ سب کچھ نہ صرف اندرون ملک بلکہ دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اس سے نہ صرف سچ اور جھوٹ کروڑوں پاکستانیوں کے سامنے آیا بلکہ حسب عادت و روایت پی ٹی آئی کے سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کے خلاف جانبداری کے جھوٹے پروپیگنڈے کے دروازے بھی بند ہوگئے۔

 اب تو لیول پلینگ فیلڈ نہ ملنے کے غبارے سے بھی ہوا نکل گئی۔ سابق چیئرمین پی ٹی آئی کا یہ فیصلہ بھی غلط ثابت ہوا جس کے مطابق پارٹی کی باگ ڈور وکلاء کو سونپی گئی تھی۔ دنیا نے دیکھا کہ پی ٹی آئی کے وکلا نہ تو الیکشن کمیشن کے فیصلے کو غلط ثابت کرسکے اور نہ ہی یہ ثابت کرسکے کہ جن کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ فلاں فلاں تو پارٹی کے رکن ہی نہیں ہیں۔

دراصل جس طرح کھیل الگ اور سیاست الگ چیزیں ہیں اسی طرح سوشل میڈیا اور قومی میڈیا پر بیانات اور عدالتی کارروائی یکسر مختلف چیزیں ہیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ وہ وکلاء جن کا ہم بڑا نام سنتے تھے اور انکے تجربے کا چرچا تھا وہ معزز جج صاحبان کے سوالات کے جوابات دے کر عدالت کو قائل ہی نہیں کرسکے۔ بلکہ انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن میں کئی قانونی بے ضابطگیاں ہوئی ہیں۔ 

علاوہ ازیں ان کا پلان اے اور بی دونوں ہی بری طرح ناکام ہوئے۔ پلان اے کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں جانے کے بعد وہاں سے پشاور ہائی کورٹ کی طرف بھی دوڑ لگا دی جبکہ لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے ابھی فیصلہ بھی نہیں آیا تھا اور اگر بالفرض لاہور ہائی کورٹ سے ان کے خلاف بھی فیصلہ آتا تو پشاور ہائی کورٹ جاتے اور بعد میں ان کے پاس سپریم کورٹ جانے کا آپشن بھی موجود رہتا۔ یہ کیسے وکلا ہیں کہ ان کو یہ نکتہ بھی سمجھ نہیں آیا تھا۔ پلان بی کے مطابق پی ٹی آئی نظریاتی کا انتخابی نشان ’’بلے باز‘‘ کو بوقت ضرورت استعمال کرنا تھا جس کے چیئرمین اختر اقبال ڈار ہیں۔

 پی ٹی آئی نے دوران سماعت ہی اپنا کیس کمزور اور ہارتا ہوا دیکھ کر اپنے امیدواروں کو پیغام جاری کیا کہ وہ سب اپنے ٹکٹ بلے باز کے نشان کے ساتھ ریٹرننگ افسران کے متعلقہ دفاتر میں جمع کرادیں۔ یہ خبر جیسے ہی ٹی وی چینلز پر چلی تو ایک طرف الیکشن کمیشن نے اپنے آر اوز کو ہدایات جاری کیں کہ کسی ایک جماعت کا امیدوار کسی دوسری جماعت کے نام، ٹکٹ اور نشان پر ٹکٹ جمع نہیں کراسکتا اس لئے اس طرح کے ٹکٹ وصول نہ کئے جائیں تو دوسری طرف پی ٹی آئی نظریاتی کے چیئرمین اختر اقبال ڈار نے ہنگامی پریس کانفرنس کرکے پی ٹی آئی کی جعل سازی کی قلعی کھول دی۔ 

انہوں نے پی ٹی آئی کے ساتھ کسی بھی معاہدے کی سختی سے تردید کی ۔ ادھر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اس طرح جعل سازی سے کسی دوسری جماعت کے ٹکٹ اپنے امیدواروں کو جاری کرنے یا کاغذات نامزدگی کے ساتھ غلط بیان حلفی جمع کرانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔

 اس طرح پی ٹی آئی کا پلان ’’بی‘‘ بھی بری طرح ناکام ہوگیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےپی ٹی آئی وکلا سے پوچھا کہ جب الیکشن کمیشن 2021ء سے جبکہ آپ کی حکومت بھی تھی نوٹسز دے رہا ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن قانون کے مطابق کروائیں تو آپ نے کیوں یہ الیکشن نہیں کروائے ،اب آپ نے الیکشن کروائے بھی تو ان میں قواعد و ضوابط کا خیال نہیں رکھا گیا۔ پی ٹی آئی وکلا کے پاس اس سادہ سوال کا بھی مدلل جواب نہیں تھا۔ پی ٹی آئی کے وکلاء کی ایک ہی رٹ تھی کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے انکے ساتھ زیادتی اور جانبداری کا مظاہرہ کیا گیا ہے اور ’’بلے‘‘ کے نشان سے محروم کیا ہے۔

 عدالت بار بار پوچھتی رہی کہ آپ ثابت کریں کہ الیکشن کمیشن نے آپ کے خلاف جانبداری کا مظاہرہ کیا ہے لیکن پی ٹی آئی وکلا اپنے اس الزام کو ثابت کرسکے نہ ہی اپنے موقف کا کسی بھی طرح دفاع کرسکے۔ وہ اپنے اس موقف کا بھی دفاع نہیں کرسکے کہ پارٹی سے انتخابی نشان لینا یا انٹرا پارٹی الیکشن کو تسلیم نہ کرنا الیکشن کمیشن آف پاکستان کا دائرہ اختیار ہی نہیں ہے۔ نہ ہی یہ ثابت کرسکے کہ اکبر ایس بابر سمیت دیگر 14درخواست گزار پی ٹی آئی کے ممبر ہی نہیں ہیں۔ مختصر یہ کہ وہ عدالت کےکسی بھی استفسار پر پارٹی کی طرف سے کوئی بھی تحریری ثبوت پیش نہ کرسکے تو عدالت نے قانون کے مطابق فیصلہ کرنا تھا اور وہ ہی کیا۔

پی ٹی آئی کی انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کی نیت ہی نہیں تھی جو الیکشن کرائے وہ الیکشن کمیشن کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش تھی جس میں وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ اس عدالتی کارروائی اور اس کو لائیو دکھانے سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ موجودہ الیکشن کمیشن بالکل غیر جانبدار ہے نہ اس کا کسی ایک طرف جھکائو ہے نہ ہی کسی ایک کے خلاف جانبداری کرتا ہے۔ پی ٹی آئی ہر اس فیصلے کو مانتی ہے جو اس کے حق میں ہو اور ہر اس فیصلے، عدالت اور ادارے کے خلاف ہوتی ہے جو قانون کے مطابق اوراس جماعت کے حق میں نہ ہو۔ پی ٹی آئی کی پالیسی بس یہ ہے کہ دھونس دھاندلی کے ذریعے ہی سیاست کی جائے۔ جو سیاست کے اصول کے خلاف ہے ابھی تو اور مرحلے بھی آنے ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔