22 جنوری ، 2013
اسلام آباد…چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ زیر حراست افراد کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تو انہیں مزید ایک سیکنڈ بھی حراست میں نہیں رکھا جا سکتا ہے۔اٹارنی جنرل قیدیوں کی رہائی سے متعلق ہدایات حاصل کریں ورنہ عدالت حکم جاری کرے گی۔چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ اڈیالہ جیل کے لاپتہ قیدیوں کی ہلاکت کیس کی سماعت کر رہا ہے ،چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ اگر زیر حراست افراد کے خلاف ثبوت ملے تو وہ حراستی مرکز نہیں جیل جائیں گے، فوج اور ایجنسیوں کو ان کے خلاف ثبوت نہیں ملے اس لیے حراستی مراکز بھیجا ، وہ فیصلہ دکھائیں جس میں انہیں غیر معینہ مدت کے لیے حراستی مرکز رکھنے کا کہا گیا ہو، زیر حراست افراد سے گرنیڈ ، کلاشنکوف اور میگزین کی برآمدگی کا بیان بظاہر غلط ہے ، کسی شخص سے چاقو بھی برآمدہو تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے گا، چیف جسٹس نے آئی ایس آئی کے وکیل راجا ارشاد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اکیسویں صدی میں پاکستان میں تحریری آئین موجود ہے ، آپ فرما رہے ہیں کہ اخلاقی بنیادوں پر حراست میں رکھا گیا۔فیئر ٹرائل اور بنیادی حقوق سمیت تمام شقیں نکلوا دیں، آپ تو چاہئیں گے کہ ملک میں عدالتیں نہ ہوں اور ان کے اختیارات بھی واپس لے لیے جائیں، راجا ارشاد نے موقف اختیار کیا کہ ان افراد کو ملکی مفاد میں زیر حراست رکھا گیا،شواہد نہ ملنے پر آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائیل نہیں کیا گیا، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ شواہد نہیں تھے تو حراستی مرکز کیوں بجھوایا، ثبوت نہیں تو ان افراد کو رہا ہونا چاہیے ، راجا ارشاد نے کہا کہ حراستی مرکز والوں سے پوچھیں کہ انہوں نے تحویل قبول کیوں کی۔