24 جنوری ، 2013
اسلام آباد…سپریم کورٹ نے کامران فیصل ہلاکت کیس میں چیئرمین نیب اور15 جنوری 2013 سے اس معاملہ میں شریک نیب کے سینئر حکام کو نوٹس جاری کر دیے ہیں ۔ اسلام آباد پولیس سے تحقیقات جبکہ پی ٹی اے سے ٹیلی فونز کالز کا ڈیٹا بھی طلب کرلیاگیاہے۔ عدالت نے سترہ جنوری کے نیب کے غیر رسمی اجلاس کے علاوہ فیڈرل لاجزکی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی طلب کرلی ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے کامران فیصل ہلاکت کیس کی سماعت کی۔عدالت نے ایم ایس پولی کلینک سے کامران فیصل کے پوسٹ مارٹم کاریکارڈبھی منگوالیاجبکہ رجسٹرارکوہدایت کی ہے کہ کامران کی موت کے بعد لاش سے متعلق فوٹیج حاصل کرکے پیش کی جائے۔ عدالت نے چیئرمین پی ٹی اے کو بھی نوٹس جاری کرکے انہیں کامران فیصل اوردیگر نیب حکام کے درمیان ٹیلی فون کالز کاڈیٹافراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ نیب افسر پر دباو ڈالنا تحقیقات میں مداخلت اور انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ ہے۔اس سے پہلے کامران فیصل کے برادر نسبتی حامد منیر نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے پولیس کو 20 جنوری کو بیان ریکارڈ کرا دیا کہ یہ خود کشی نہیں قتل ہے، ابھی تک پولیس نے ایف آئی آر درج نہیں کی، کامران فیصل کے والد کا موقف ہے کہ نیب ایف آئی آر درج کرائے، کامران فیصل کا ابھی تک لیپ ٹاپ برآمد نہیں ہوا، سی سی ٹی وی فوٹیج منگوائی جائے کہ کامران فیصل کی موت سے پہلے کن نیب حکام نے ملاقات کی۔ جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ جرم ہوا ہے پولیس خود بھی ایف آئی آر درج کر سکتی ہے۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیے کہ ریکارڈ میں بہت سے لوگوں کا موقف ہے کہ کامران پر دباوٴ تھا، کامران نے دباوٴ کے تحت بھی خود کشی کی تو یہ کیس بنتا ہے، جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ یہ جاننا ہے کہ کامران فیصل پر دباو کس نے ڈالا۔ کیس کی مزیدسماعت 28 جنوری کوکی جائیگی۔