14 فروری ، 2024
چیف جسٹس پاکستان فائز عیسٰی نے توہین مذہب کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ لگتا ہے اسلام آباد میں کوئی گھر محفوظ نہیں، بغیر وارنٹ پولیس لوگوں کےگھروں کا تقدس کیسے پامال کرسکتی ہے؟
سپریم کورٹ میں توہین مذہب کے ملزم کی ضمانت کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نےکی۔
سپریم کورٹ کے حکم پر ایس ایس پی اور ایس پی اسلام آباد پولیس عدالت میں پیش ہوئے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ توہین مذہب کےکیس کی تفتیش ایس پی نے خود کرنا ہوتی ہے، قانون کی خلاف ورزی پر ایس پی کو معطل کریں یا ایس ایس پی کو؟ وکیل کے مطابق پولیس توہین مذہب کےکیسز میں ڈرتی ہے اور جیسے ہی کیس آتا ہے تو مقدمہ درج کر لیتی ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پولیس اگر ڈرپوک ہونے لگی تو بہادر کون رہےگا؟ بغیر وارنٹ کیا پولیس کسی کے گھر میں داخل ہو سکتی ہے؟ چادر اور چار دیواری کا تقدس کہاں گیا؟ کیا آپ کے گھر کوئی بغیر وارنٹ جا کر تلاشی لے سکتا ہے؟ پولیس آرڈر 2002 کے مطابق بغیر وارنٹ گرفتاری کسی کےگھر داخل ہونے پر 5 سال کی سزا بنتی ہے۔
چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئےکہا کہ ایک تصویر کی بنیاد پر توہین مذہب کا کیس بنا دیا جیسے آپ ہی اسلام کے محافظ ہیں، پہلے توہین مذہب کا کیس بنا، گرفتاری ہوئی پھر جا کر تصویر برآمد کرائی،کیا پولیس نے یہ ثابت کرنا ہےکہ توہین مذہب عام ہے اور اس سے اسلام بلند ہوگا؟ ایک شخص اپنے دوست کو دم کرانےگیا تو وہاں تصویر دیکھی اور آکر مقدمہ بنا دیا، پولیس بندوقیں رکھ کر بھی ڈرپوک ہے، ہم اس قسم کے کیسز سے تھک چکے ہیں، یقینی بنائیں کہ مذہب ذاتی مقاصد کے لیے استعمال نہ ہو۔
عدالت نے تفتیش کے تقاضے پورے نہ ہونے پر ملزم کی 50 ہزار روپے مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کرلی۔
عدالت نے معاملے کی مزید انکوائری کا حکم دیتے ہوئےکہا کہ تفتیش ایس پی رینک کے نیچےکے افسر سے نہ کرائی جائے۔