06 مارچ ، 2024
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کیس کی سماعت کے دوران برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ممنوعہ اسلحہ لائسنس رکھنے کی کیٹیگری میں میرانام بغیر اجازت شامل کیا گیا ، خط بھی لکھا ، جواب نہیں دیا گیا۔
سپریم کورٹ میں ملک بھر میں ممنوعہ اسلحہ کیخلاف کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔
انہوں نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ممنوعہ اسلحہ لائسنس رکھنے کی کیٹیگری میں میری اجازت کے بغیرمیرا نام بھی شامل کیا گیا، میرے لیے قانون میں خصوصی رعایت ملنا باعث شرم ہے، میں نے اس معاملے پرایک خط بھی لکھا تھا جس کا جواب نہیں دیا گیا، کلاشنکوف کوئی کھلونا یا کنگھی نہیں ہوتی۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ پبلک سرونٹ کا مقصد عوام کی خدمت کرنا ہوتا ہے، اسکولوں میں جائیں تو وہاں سکیورٹی گارڈزاسلحہ لیے کھڑے ہوتے ہیں، غریب کے بچوں کے اسکولوں کے باہر تو گارڈز نہیں ہوتے، اسلحہ اٹھائے شخص کے بارے میں کیسے پتہ چلے گا وہ دہشتگرد ہے یا نہیں؟
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ شام کو اسلام آباد میں دیکھیں کیا ہوتا ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا پارلیمنٹ کے ارکان کوبھی اجازت ہے وہ اپنی ٹیبل پراسلحہ رکھ کربیٹھیں؟
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ امید ہے نئی حکومت اس معاملے پرکوئی اقدامات اٹھائے گی، کوئی بھی ملک کے عوام کا نہیں سوچتا، سوشل میڈیا پر اسلحہ کی نمائش کی ویڈیوز موجود ہیں، اسلحہ لیے بڑی مشہور شخصیات کی سوشل میڈیا پر ویڈیوزموجود ہیں، ہم کسی کا نام لے کر اسے شرمندہ نہیں کرنا چاہتے، ہم نے اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنانا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئی جی بھی پولیس کے قافلے کے ساتھ سفر کرتا ہے، کب تک قانون کیساتھ مذاق ہوتا رہے گا؟ جب بم پھٹ رہے ہوں تو دیواریں اونچی کردی جاتی ہیں۔
سپریم کورٹ نے آئندہ سماعت پر اٹارنی جنرل کو طلب کرلیا اور چیف جسٹس نے کہا کہ ہوسکتا ہے اس معاملے پر عدالتی معاون مقررکریں۔