آصف علی زرداری کا نامکمل مشن

یوں تو صدر پاکستان کا عہدہ ایک رسمی عہدہ بن کر رہ گیا ہے، مگر بدقسمتی سے علوی صاحب نے اس اہم اور بڑے عہدے کی جس انداز سے بے توقیری کی اسکی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ عارف علوی نے آرڈیننس کی فیکٹری کھول کر ثابت کیا کہ وہ ضیاءالحق ثانی بننے جارہے ہیں۔

عدم اعتماد کی تحریک میں انکا غیرآئینی کردار بھی سامنے آیا۔ ایوان صدر پاکستان کیخلاف سازش کا گڑھ بنکر رہ گیا تھا، ایسے میں ملک کو ایک ایسے صدر کی ضرورت تھی، جو تمام اکائیوں کا جوڑ سکے۔ جو بلوچستان کے زخموں پر مرہم رکھ سکے۔ جو غیور پختونوں کو دہشتگردی کے آسیب سے چھٹکارا دے سکے۔ ایسے میں آصف علی زرداری کا صدر پاکستان منتخب ہونا ہوا کا تازہ جھونکا ہے۔

آصف علی زرداری نے آغاز حقوق بلوچستان جہاں چھوڑا تھا وہاں سے ایک بار پھر بلوچستان کی تعمیر و ترقی کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔ پنجاب میں بڑھتی نفرت اور ملک دشمن اداروں کا تعلیمی اداروں میں کھلی مداخلت کے حوالے سے اور بنجر زمینوں کو سر سبز کرنے، کسانوں کو انکا جائز حق دینے، مزدوروں کی تنخواہوں میں اضافے کا اگر کسی کے پاس کوئی نقشہ ہے تو وہ آصف علی زرداری کے پاس ہے، وہ بحیثیت صدر پاکستان اس حکومت اور مملکت کی باگ ڈور سنبھالنے کیلئے موجود سیاسی قیادت میں سب سے زیادہ تدبر اور فکر رکھنے والے شخص ہیں، اور مجھے قوی یقین ہے کہ مفاہمت کے یہ بادشاہ عمران خان جیسے ضدی انسان کو بھی رام کرنے میں کامیاب ہوجائے گا، اور ملک میں مفاہمت کا ایک نیا دور شروع ہوگا جس سے سیاسی استحکام اور معاشی استحکام کے دروازے کھلتے ہوئے نظر آئینگے۔

مگر بدقسمتی سے عمران خان اور تحریک انصاف دونوں کیلئے ملک میں معاشی اور سیاسی استحکام موت کا کنواں ہے۔ عمران خان کی پوری کوشش ہوگی کہ ملک میں سیاسی افراتفری بڑھے، اسی لئے انہوں نے آئی ایم ایف کو خط لکھ کر پکارا۔ ایسے میں آصف علی زرداری کا کردار ہر حوالے سے اہم نظر آتا ہے، اگر مفاہمت کا بادشاہ عمران جیسے انا پرست کیلئے اسٹیبلشمنٹ سے معافی دلوانے اور انھیں راہ راست پر لانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پاکستان ترقی کی منازل میں سے کئی منازل خود بخود طے کر چکا ہوگا۔

 صدر آصف علی زرداری پورے ملک کو جوڑنے کیساتھ ساتھ تمام سیاسی قیادت کو جوڑتے نظر آئیں گے۔ کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ ہمیں 47سے تقسیم کر کے عالمی مفاد پرستوں نے اس ملک اور معیشت کا تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی یہ ہی وجہ تھی 2008 ءمیں بھی پی پی پی نے حکومت بناتے ہی تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کا حکم دیا تھا، کیوں کہ پی پی پی اس ملک میں امن، محبت اور اتفاق کی سیاست چاہتی ہے، جہاں کوئی فریال تالپور یا علیمہ خان یا مریم نواز شریف کسی کی سیاسی نفرت کے انتقام کا ایندھن بن کر جیلوں میں نہ جائیں ، یہ ہی شہید بینظیر بھٹو کا خواب تھا، جسے آصف علی زرداری نے 2008 ء اور 2013ء میں بھی عملی جامہ پہنایا اور ایک بار پھر تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی۔ 

بحیثیت صدر پاکستان آصف علی زرداری کو اگر اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ آسانی سے کام کرنے دیتی اور بے بنیاد اور جھوٹے پروپیگنڈے کا سہارا نہ لیا جاتا تو آج پاکستان کے حالات یقینی طور پر مختلف ہوتے۔ آصف علی زرداری نے اپنے سابقہ دور میں نیشنل فناننس کمیشن کے ساتھ ساتھ صوبوں اور وفاق کے درمیان بیشتر معاملات حل کرواکر اور 18ویں ترمیم دے کر جس طرح وفاق پاکستان کو مضبوط کیا، اور انہوں نے پاکستان چین راہداری کی بنیاد رکھی، اسکے نتیجے میں پاکستان اور چین کا پہلے سے مضبوط رشتہ مزید مضبوط ہوگیا اور چین پاکستان کیساتھ ہر کڑے وقت میں ساتھ کھڑا رہا کیوں کہ چین کا آج جتنا اسٹیک پاکستان میں ہے شاید ہی کسی دوسرے ملک میں ہو اور یہ پاکستان کی کامیاب خارجہ پالیسی کی دلیل ہے جس کا سہرا صدر آصف علی زرداری کو جاتا ہے۔ 

دوسری طرف افغانستان اور ایران کو بھی آصف علی زرداری نے رام کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا، اگر پاک ایران گیس پائپ لائن پر کام مکمل کرلیا جاتا تو پاکستان کو توانائی کے شعبے میں مالی خسارہ نہ اٹھانا پڑتا۔ آصف علی زرداری نے عالمی دباؤ کے باوجود پاکستان ایران گیس پائپ لائن پر کام شروع کروایا جو بعد میں آنے والی حکومت کو عالمی دباؤ کے نتیجے میں بند کرنا پڑا۔

 آصف علی زرداری بحیثیت صدر پاکستان تمام صوبوں کو ایک میز پر بٹھانے میں بھی کامیاب رہے، سیاسی اختلاف رائے کے باوجود تمام سیاسی جماعتیں ان کے دور میں قومی مسائل پر ایک ساتھ کھڑی نظر آئیں۔ آج آصف علی زرداری دوبارہ صدر پاکستان منتخب ہوچکے ہیں، میری رائے میں اگر آصف علی زرداری پاکستان میں موجود تناؤ اور سیاسی عدم استحکام کو ختم کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو کوئی شک نہیں پاکستان کیلئے آنیوالا دور سنہری ہوگا کیوں سیاسی عدم استحکام ہی ہماری جڑیں کھوکھلی کررہا ہے۔ تمام سیاسی رہنماؤں کی سزائیں معاف اور عام معافی کا اعلان کر کے آصف علی زرداری پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سیاسی نام بن سکتے ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔