22 اپریل ، 2024
ورم ہمارے جسم کا وہ قدرتی ردعمل ہے جو جسم میں داخل ہونے والے بیکٹریا اور وائرسز کے خلاف متحرک ہوتا ہے۔
یہ عمل خون کے سفید خلیات سے متحرک ہوتا ہے۔
اکثر یہ ورم مختصر المدت ہوتا ہے اور جراثٰموں کا خاتمہ ہونے پر وہ چند گھنٹوں یا دنوں میں ختم ہو جاتا ہے۔
مگر دائمی ورم کئی ماہ یا برسوں تک برقرار رہتا ہے جس کے نتیجے میں کینسر، امراض قلب، ذیابیفس، دمہ اور دیگر متعدد امرض کا خطرہ بڑھتا ہے۔
دائمی ورم سے دل، پھیپھڑوں، گردوں اور دیگر متعدد جسمانی اعضا متاثر ہوتے ہیں اور اہم بات یہ ہے کہ اس دوران اکثر تکلیف کا احساس بھی نہیں ہوتا۔
آسان الفاظ میں ہمارے جسم کو بیماروں سے لڑنے اور جلد صحتیابی کے لیے معمولی ورم کی ضرورت ہوتی ہے، مگر اس کے زیادہ وقت تک پھیلاؤ سے ہمارا مدافعتی نظام جسم کے صحت مند اعضا اور ٹشوز پر حملہ آور ہو جاتا ہے۔
اچھی بات یہ ہے کہ اس سے بچنا اتنا زیادہ بھی مشکل نہیں اور چند آسان عادات کے ذریعے دائمی ورم کے مسئلے سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔
جب ہم نیند کی کمی کے شکار ہوتے ہیں تو ہمارا جسم ورم کے پھیلاؤ کی رفتار کو تیز کر دیتا ہے۔
ہر رات کم از کم 7 گھنٹے نیند کو یقینی بنانے سے اس خطرے سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔
ماہرین کے مطابق رات کو سونے اور صبح جاگنے کا وقت روزانہ ایک ہونا چاہیے جبکہ سونے سے قبل فونز کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔
محض 20 منٹ کی معتدل ورزش جیسے تیز رفتاری سے چہل قدمی سے جسم میں ورم کے خلاف ردعمل متحرک ہوتا ہے۔
جسمانی سرگرمیاں صحت کے لیے مفید ہوتی ہیں اور ماہرین کی جانب سے روزانہ 30 منٹ کی ورزش کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے، مگر 20 منٹ کی چہل قدمی سے بھی دائمی ورم کے مسائل سے بچنا ممکن ہو سکتا ہے۔
تحقیقی رپورٹس سے معلوم ہوا ہے کہ ہلدی، دار چینی، زیرہ اور ادرک وغیرہ کے استعمال سے جسم کے اندر ورم کا باعث بننے والے عمل کی رفتار سست ہو سکتی ہے۔
غذاؤں میں ان مسالوں کے استعمال سے صحت کو دیگر فوائد بھی ہوتے ہیں۔
تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ انٹرمٹنٹ فاسٹنگ سے صرف جسمانی وزن کو ہی کنٹرول کرنے میں مدد نہیں ملتی بلکہ اس سے ورم کی روک تھام بھی ہوتی ہے۔
خیال رہے کہ انٹرمٹنٹ فاسٹنگ طریقہ کار میں روزانہ ایک خاص دورانیے تک کھانے سے دوری اختیار کی جاتی ہے۔
پالک اور ساگ سمیت دیگر سبز پتوں والی سبزیوں میں متعدد اینٹی آکسائیڈنٹس اور دیگر مرکبات موجود ہوتے ہیں جو جسمانی ورم میں کمی لاتے ہیں۔
تحقیقی رپورٹس کے ان سبزیوں کا ہر ہفتے کم از کم ایک بار استعمال کرنے سے بھی ورم میں کمی لانے میں مدد ملتی ہے۔
یوگا سے تناؤ بڑھانے کا باعث بننے والے ہارمون کورٹیسول کی سطح میں کمی آتی ہے۔
یعنی یوگا کی مشقیں کرنے سے ڈپریشن اور انزائٹی جیسے مسائل سے بچنے میں مدد ملتی ہے اور ورم کی بھی روک تھام ہوتی ہے۔
ریفائن کاربوہائیڈریٹس، سرخ گوشت اور تلی ہوئی غذاؤں کے استعمال جسم میں ورم بڑھتا ہے۔
اس کی بجائے ورم کش پھلوں، سبزیوں، گریوں، بیجوں اور مچھلی جیسی غذاؤں کو ترجیح دیں۔
ٹماٹر، بلیو بیریز، بادام، اخروٹ، دالوں اور مچھلی کی مختلف اقسام کے استعمال سے ورم کو کنٹرول کرنے میں مدد ملتی ہے۔
جسمانی وزن میں اضافے سے ورم کی شدت بڑھ جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جسمانی وزن میں کمی سے ورم کی روک تھام میں مدد ملتی ہے۔
سبز چائے میں پولی فینولز سمیت ایسے متعدد مرکبات موجود ہوتے ہیں جو جسم میں گردش کرنے والے مضر مالیکیولز کا مقابلہ کرتے ہیں۔
یہ مالیکیولز جسم میں ورم کو بڑھانے کا باعث بنتے ہیں۔
ہر ہفتے 2 سے 3 کپ سبز چائے پینے سے بھی ورم کی روک تھام میں مدد مل سکتی ہے۔
تمباکو نوشی سے جسم پر متعدد مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ورم بھی ان میں سے ایک ہے۔
تمباکو نوشی کے عادی افراد کے اندر ورم کی سطح بھی زیادہ ہوتی ہے، تو اس لت سے بچنا ورم کی روک تھام کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔