31 جنوری ، 2013
کراچی… محمد رفیق مانگٹ…برطانوی اخبار”انڈی پینڈنٹ“ نے کراچی کی مافیاز،گینگسٹرز اور ٹارگٹ کلنگ پر اپنی رپورٹ میں لکھا کہ مافیا گروہوں اورغنڈا عناصر نے سیاسی اور فرقہ وارانہ تشدد میں اضافہ کردیا۔قتل ہونے والوں کے کیس کی نہ تحقیق،نہ گرفتاری اور نہ اس کی ذمہ داری کا الزام کسی پر ڈالا جاتا ہے۔ کراچی میں سیاسی اور نسلی بنیادوں پرتشدد کی ایک طویل تاریخ ہے۔ 2012ء کراچی کی تاریخ کا خونریز سال ثابت ہوا۔ کراچی میں گزشتہ برس دو ہزار سے زائد افراداپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔2011ء سے چند سو زائد ہلاکتیں ہوئیں۔کابینہ امن کی بحالی کیلئے ملٹری آپریشن پر غور کر رہی ہے۔اس سال پاکستان میں انتخابات ہونے جا رہے ہیں، بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں کہ کراچی میں انتخابات کا انعقاد محفوظ ہوسکے گا۔طالبان مضبوط اقتصادی مرکز میں اپنا مضبوط گڑھ بنانے کے لئے اس افراتفری سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔دسمبر میں نو پولیو اہلکاروں کو امریکی جاسوسی کے شبے میں ہلاک کردیا گیا ان میں سے چارصرف کراچی میں میں ہلاک کیے گئے۔تاہم گزشتہ برس امریکی انسٹی ٹیوٹ آف پیس کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں تشدد کی بڑی وجہ سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز ہیں جو کراچی کے وسائل پر کنٹرول کے لیے تصادم کرتے ہیں۔رپورٹ کی مصنفہ کا کہنا تھا کہ کراچی زیادہ دولت مند شہر ہے ۔شہر کے حجم اور صنعتی اور تجارتی مفادات کی وجہ سے کراچی میں کسی دوسری جگہ کے مقابلے سیاسی قوت کے لحاظ مفادات زیادہ ہیں۔پاکستان میں زیادہ تر سیاسی جماعتوں کی تشکیل لسانی اور نسلی بنیادوں پر ہے۔تاریخی طور پر کراچی میں سب سے اہم کشیدگی عوامی نیشنل پارٹی اور اردو بولنے والوں کے درمیان رہی جس کی نمائندگی متحدہ قومی موومنٹ کرتی ہے۔حالیہ سالوں میں متحدہ اور پیپلز پارٹی کے درمیان کشیدگی کی وجہ شہر کے معاملات مزید پیچیدہ صورت حال اختیار کرچکے ہیں۔کراچی میں آبادی میں اضافہ شہر کے بنیادی تعمیراتی انفرااسٹرکچر اور شہری منصوبہ بندی کے تحت نہیں ہوا۔مالی اور اقتصادی حب ہونے کی وجہ سے اس شہر نے ملک بھر کے لوگوں کو اپنی طرف کھینچا۔ملک کے شمالی حصے کے لوگ وہاں طالبان کے تنازع کی وجہ کراچی میں پناہ پر مجبور ہوئے۔جب کہ سندھ میں سیلاب کی وجہ سے دیہی آبادی نے کراچی کا رخ کیا۔اس کے علاوہ نسلی بنیادوں کے ساتھ شیعہ اور سنی فرقہ وارانہ تشدد نے بھی حالات بدتر کیے۔ اس سے انتہا پسند ی اور عسکریت پسندی میں اضافہ ہوا۔کراچی میں لینڈ مافیااور پانی مافیا جیسے مجرمانہ گروہ بھی سرگرم ہیں۔ایک اندازے کے مطابق کراچی میں ایک ارب روپے بھتہ یومیہ لیا جاتا ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں اپنے عسکری ونگوں سے انکاری ہیں۔اخبار نے ایم کیو ایم ترجمان واسع جلیل کے حوالے سے لکھا کہ کہ مجموعی طور یہ تاثر ابھرا ہے کہ تشدد کی بڑی وجہ مافیاز کی آپس میں لڑائی ہے۔اعلیٰ سطح پر سیاسی جماعتیں آپس میں تعاون کی بات کرتے ہیں،یقیناً اے این پی اور ایم کیو ایم دونوں پیپلز پارٹی کی حکومت میں اتحادی ہیں اس میں شک نہیں کہ تشدد مقامی سطح پر جاری ہے،اس پانی کو مزید گدلا کردیاجاتا ہے جب سیاسی عناصر اور مجرمانہ گینگز کا آپس میں گٹھ جوڑ بنتا ہے۔ ایسے کئی مجرمانہ گروپس ہیں جو سیاسی جماعتوں سے اپنے روابط رکھتے ہیں اور ان کے مفادات کے تحفط میں مدد دیتے ہیں جب کہ وہ مجرمانہ سرگرمیوں سے فائدہ حاصل کرتے ہیں۔منافع میں کمی کی صورت میں وہ زمینوں پر قبضہ یا بھتہ وصولی اور حتیٰ کہ ٹارگٹ کلنگ تک کرتے ہیں ،سیاسی جماعتیں کسی حد تک ان مجرمانہ گینگز کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔اخبار نے لیاری میں کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے حوالے سے لکھا کہ 2008ء میں اس کی تشکیل پریہ الزام دیا جاتا ہے کہ کراچی پر کنٹرول کرنے کیلئے ایم کیو ایم سے لڑائی کیلئے اسے بنایا گیا، اسے پیپلز پارٹی کا ایک حصہ سمجھا جاتا ہے۔لیاری میں اسلحے کے ہزاروں لائسنس جاری کیے گئے۔کئی حلقے الزام دیتے ہیں پیپلز پارٹی ،ایم کیو ایم اور اے این پی کے اتحاد نے شہر میں تشدد میں اضافہ کیا ۔2008ء سے سات ہزار افرا د کو موت کے گھاٹ اتار جاچکا ہے۔ کراچی کی لڑائی میں ایم کیو ایم ،اے این پی کے علاوہ اب تیسری فریق پیپلز پارٹی بھی شامل ہوچکی ہے۔2011ء میں پیپلز امن کمیٹی کو کالعدم قرار تو دیا گیا ۔تاہم وہ اب بھی موٴثر طریقے سے قائم ہے۔سیکورٹی خدشات کی وجہ سے ارکان پارلیمنٹ اپنے حلقوں میں آزادنہ نہیں گھوم سکتے اور نہ اپنے ووٹروں سے رابطہ رکھ سکتے ہیں۔کراچی بھر میں امن و امان کی صورت حال بریکنگ پوائنٹ ہے، اگر ٹارگٹ کلنگ لیاری اور اورنگی میں ہوتی ہے تو تشددانہی علاقوں تک محدود نہیں رہتا یہ کسی بھی جگہ ہوسکتا اور پھیل سکتا ہے۔زیادہ تر لوگ رات کواکیلے سفر نہیں کرتے ۔ پوش علاقوں کا طبقہ بیکری،بیوٹیشن، اور ریستورانوں تک محدود رہ گیا اور زیادہ تر بھاری سیکورٹی میں آتے ہیں۔