19 مئی ، 2024
متحدہ عرب امارات کی جانب سے فلسطین کو آزاد و خود مختار ریاست قرار دینے اور اسے اقوام متحدہ کا مکمل رکن بنانے کی قرارداد گزشتہ دنوں بھاری اکثریت سے منظور کر لی گئی۔ جنرل اسمبلی میں یہ قرارداد یواے ای کی جانب سے پیش کی گئی تھی جسکے حق میں 143 ارکان نے ووٹ دیا جبکہ امریکہ سمیت 9 ممالک نے اس قرارداد کی مخالفت کی۔ یہ قرارداد علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کے معاملے میں یقیناً ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہے۔
اسکی بنیاد پر اب دیرینہ مسئلہ کشمیر حل کرانے کیلئے بھی یقیناً اقوام متحدہ پر دبائو آئیگا۔ اس نمائندہ عالمی فورم پر تو کشمیریوں اور فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کیلئے 1948ء میں قراردادیں منظور کرکے بھارت اور برطانیہ کے پیدا کردہ ان مسائل کے حل کا راستہ دکھا دیا گیا تھا جبکہ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی بنیاد پر اقوام متحدہ نے مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے دو ریاستی فارمولا بھی دیدیا تھا۔ اسکے باوجود فلسطینی سرزمین پر برطانیہ کی جانب سے جبراً تشکیل دی گئی ریاست اسرائیل کو توسیع دینے کے امریکی، برطانوی عزائم برقرار رہے اور انہی کی سرپرستی میں اسرائیل نے فلسطین کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے جنونی منصوبے پر کام شروع کیا۔ وہ مسلمانوں کے قبلہ اوّل بیت المقدس کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی بھی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔
اسی طرح بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم اور کشمیریوں پر مظالم ڈھانے کاسلسلہ ساتھ جاری ہے جو کشمیریوں کی حمایت پر پاکستان کی سلامتی کے بھی درپے ہے اور اسکے خلاف دہشت گردی سمیت اپنی سازشوں کا سلسلہ دراز کئے ہوئے ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے بھی اس عالمی فورم پر اسرائیلی مظالم اور اسکے غیر قانونی و غیرانسانی اقدامات کی مذمت کی اور باور کرایا کہ پاکستان نے آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرانے کیلئے یو این جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل میں اپنی ذمہ داریاں پوری کی ہیں جبکہ سلامتی کونسل کے فیصلے پر عمل درآمد کرانے کیلئے اس کے مستقل ارکان متفق نہیں ہیں۔
امر واقع یہ ہے کہ امریکی سرپرستی میں اسرائیل اور بھارت کے جاری توسیع پسندانہ عزائم ہی اس پورے کرہ ارض کی سلامتی کیلئے سنگین خطرات پیدا کر رہے ہیں جبکہ امریکی سرپرستی کے نتیجے میں علاقائی اور عالمی امن کیلئے اقوام متحدہ کی کوششیں اکارت جا رہی ہیں اور وہ لیگ آف دی نیشنز کی طرح قطعی غیر موثر ہو کر اپنی بے عملی کا ماتم کرتا نظر آتا ہے۔ اگر اقوام متحدہ آزاد فلسطینی ریاست اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کیلئے اپنی قراردادوں کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہو جائے تو کسی بھی ملک کے توسیع پسندانہ عزائم علاقائی اور عالمی امن کو تاراج کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔
دوسری جانب اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر جیلاد ایرڈن نے نمائندہ عالمی فورم پر فلسطین کے حق میں قرارداد منظور ہونے پر ہزیمت اور شرمندگی کے خوف میں جنرل اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر اقوام متحدہ کے چارٹر کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے۔ فلسطین کو آزاد و خود مختار ریاست قرار دینے سے متعلق قرارداد پر ووٹنگ سے قبل اسرائیلی سفیر تقریر کیلئے آئے تو اپنے ساتھ پیپر شریڈر بھی لے کر آئے اور ہائوس سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ فلسطین کو مکمل رکنیت دینے کے حق میں ووٹ دیں گے تو دراصل آپ اقوام متحدہ کے چارٹر کے ٹکڑے ٹکڑے کریں گے۔
یہ کہتے ہوئے انہوں نے یواین چارٹر کے صفحات پیپر شریڈر میں ڈال دیئے۔ جس وقت اقوام متحدہ میں فلسطین کو آزاد و خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کی قرارداد پر بحث جاری تھی‘ عین اس وقت بھی اسرائیلی فوجیں غزہ میں مظلوم فلسطینیوں کا قتل عام جاری رکھے ہوئے تھیں اور رفح کے مغرب میں اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں مزید 4 فلسطینی شہید اور 16زخمی ہو چکے تھے جس کے بعد عراقی ملیشیا نے اسرائیل کے نیواتم اڈے پر ڈرون حملہ کیا جسکے نتیجہ میں 4اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے۔ غزہ میں اسرائیلی جارحیت کا سلسلہ گزشتہ8 ماہ سے جاری ہے جس میں اب تک خواتین اور بچوں سمیت 34 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جبکہ ہزاروں فلسطینی شدید زخمی حالت میں آج بھی بے یارو مددگار پڑے ہیں۔
ہزاروں بچے یتیم اور خواتین بیوائیں ہو چکی ہیں۔ اس اسرائیلی وحشت و بربریت نے فلسطینیوں کے خاندانوں کے خاندان صفحہ ہستی سے مٹا دیئے ہیں۔ کوئی ہسپتال، درسگاہ اور کوئی بازار صحیح سلامت نہیں رہنے دیا۔ اس وقت پوری غزہ پٹی عملاً فلسطینیوں کا قبرستان بن چکی ہے جبکہ امریکی معاونت و اشیرباد سے اسرائیلی فوج آج باقی ماندہ فلسطینیوں کی تکہ بوٹی کرنے میں مصروف ہے جس پر اقوام عالم کی جانب سے پڑنے والا کوئی دبائو بھی اثر پذیر نہیں ہو رہا۔ حد تو یہ ہے کہ آج پورا مغرب اور یورپ بھی فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور اسرائیلی مظالم رکوانے کیلئے سڑکوں پر ہے۔ انکے منتخب ایوانوں، عبادت گاہوں اور تعلیمی اداروں میں بھی اسرائیل کے خلاف احتجاجی ریلیاں نکالی اور قراردادیں منظور کی جا رہی ہیں مگر اس عالمی احتجاج پر نہ امریکہ ٹس سے مس ہوتا ہے اور نہ اسرائیل کے ظالم ہاتھ عملاً روکنے کیلئے مسلم دنیا کی طرف سے کوئی ٹھوس اقدام اٹھایا جاتا ہے۔ امریکہ جنگ بندی کیلئے یواین سلامتی کونسل میں اب تک پیش کی گئی ہر قرارداد کو ویٹو کر چکا ہے جبکہ اسرائیل جنگ بندی کی ہر تجویز کا جواب فلسطینیوں کا مزید قتل عام کرکے دیتا ہے۔
مسلم دنیا میں سے صرف ایران نے اسرائیلی بربریت کے ردعمل میں اس کی فوجی تنصیبات پر میزائل اور راکٹ حملے کئے جو درحقیقت ایرانی سفارت خانے پر اسرائیلی حملے کا ہی جواب تھا جبکہ باقی مسلم دنیا کی جانب سے وسائل ہونے کے باوجود اب تک محض مذمتی بیانات اور قراردادوں پر ہی اکتفا کیا گیا ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔