23 جون ، 2024
قارئین پچھلے ہفتے کے کالم میں کرکٹ ٹیم اور بورڈ میں تبدیلی کا تفصیلی ذکر کیا گیا تھا اور اب تو یہ پوزیشن ہو چکی ہے کہ کرکٹ کے شائقین نے بھی برملا کہنا شروع کر دیا ہے کہ بہت بڑی سرجری کی ضرورت ہے۔
مجھے توحالیہ آئرلینڈ اور انگلینڈ کے دورے ہی سے اندازہ ہو گیا تھا کہ شاداب خان کی قیادت میں ایک گروپ بابر اعظم کے دوبارہ کپتان بن جانے کی وجہ سے خوش اور مطمئن نہیں اور اس گروپ کے کھلاڑی مایوس ہو کر یا پھر جان بوجھ کر اچھا نہیں کھیلتے۔ یہ ایک نفسیاتی مسئلہ بھی ہے کہ سابق چیئرمین نے شاہین آفریدی پر اعتماد کر کے اسے کپتان بنا دیا تھا لیکن جب موجودہ چیئرمین بابر اعظم کی کارکردگی سے متاثر اور اسے چاہنے والے نکلے تو ان کی پھر سے سنی گئی اور ان کو ون ڈے اور ٹی 20کا کپتان بنا دیا گیا، یہ قدرتی امر ہے کہ جس کھلاڑی کو آپ اعتماد سے لائیں اور پھر اسی پر بداعتمادی بھی ظاہر کر دیں تو وہ یقینی طور پر مایوس ہو گا اور ڈپریشن محسوس کرے گا سو شاہین آفریدی کے ساتھ یہ ہوا۔
اگرچہ اس نے حوصلہ دکھایا اور کہا کہ بابر اعظم کی حمایت کریں گے لیکن کہنا کچھ اور بات اور کچھ کرنا اور بات ہے۔ گزشتہ 2دہائیوں میں صرف پاکستان کی واحد ٹیم ہے کہ اگر اسکے ’کارناموں‘ کو شمار کیا جائے تو کئی ایسے لمحات مل جائیں گے کہ جو کروڑوں دلوں کے ٹوٹنے کا سبب بنے۔ مگر انڈیا سے شکست کا حالیہ لمحہ ان سب پہ بھاری ہے۔ یہ یقیناً اس خلش پہ بھی بھاری ہے جو7 ماہ پہلے افغانستان سے شکست کی صورت میں سامنے آئی تھی کہ اس وقت پاکستانی ٹیم میں دنیا کا کامیاب ترین بلے باز قیادت کو نصیب ہے، جسے ایک باصلاحیت مڈل آرڈر دستیاب ہے اور جس کی پیس بولنگ کا دنیا بھر میں چرچا رہتا ہے، جو ٹیسٹ کرکٹ میں 70 سال سے زائد کی تاریخ رکھتی ہے، وہ کیسے اس ٹیم سے ہار گئی جسے انٹرنیشنل کرکٹ میں آئے ابھی جمعہ جمعہ8 دن بھی نہیں ہوئے؟
گزشتہ سال کے آئی سی سی ایک روزہ عالمی کپ میں بھی پاکستانی ٹیم کی کارکردگی انتہائی خراب رہی تھی۔ ٹیم لیگ رائونڈ سے ہی باہر ہو گئی تھی۔ اس کے بعد پی سی بی اور پاکستانی ٹیم کی کپتانی میں بڑے پیمانے پر تبدیلی ہوئی۔ بابر کو تینوں فارمیٹ کی کپتانی سے استعفیٰ دینا پڑا۔ شاہین ٹی 20میں کپتان بنے اور شان مسعود کو ٹیسٹ کرکٹ میں ٹیم کا کپتان بنایا گیا۔ پھر جب ذکا اشرف کی جگہ محسن نقوی پی سی بی چیف بنے تو پھر سے کپتان بدلے گئے۔ بابر کو پھر سے ٹی20 کی کپتانی سونپی گئی، اور اب ٹی20عالمی کپ میں پاکستانی ٹیم کا جیسا حال ہوا ہے، کوئی حیرانی نہیں اگر ایک بار پھر بابر سے کپتانی چھین لی جائے۔ پاکستانی کھلاڑی لگتا ہے کہ پی ایس ایل کے ہو کر ہی رہ گئے، جہاں ان کی انا اور بادشاہت چلتی ہے۔
اصل مقابلے میں ان کی کوئی کارکردگی نہیں اگلے سال پاکستان کو کوالیفائی کرنے کے لیے کھیلنا پڑے گا۔ سلیکشن کمیٹی سے لے کر ٹیم تک کوئی پلان نظر نہیں آتا۔ کبھی ان کے کھیل کو دیکھ کر لگتا ہے جیتنے لگے ہیں، توہار جاتے ہیں۔ جب لگتا ہے ہارنے لگے ہیں، تب بھی ہارہی جاتے ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے عہدیداروں کو اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے اور انہیں خود سے یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ یہ نوبت کیسے آن پہنچی کہ پچھلے ورلڈ کپ کا فائنل کھیلنے والی ٹیم اس حال کو پہنچ گئی۔ خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان اور صوبائی مشیر اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے قومی کرکٹ ٹیم کی مایوس کن کارکردگی پر چیئرمین پی سی بی محسن نقوی سے فوری استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ بھارت کے سابق کپتان سری کانت نے کہا ہے کہ مجھے نہیں لگتا کہ بابر اعظم کو ٹی 20کرکٹ کھیلنی چاہیے۔ بابر اعظم نے حال ہی میں بھارت کے ویرات کوہلی کو ٹی 20بین الاقوامی مقابلوں میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑی کے طور پر پیچھے چھوڑا ہے، سری کانت نے بابر کے نسبتاً کم اسٹرائیک ریٹ پر بھی سوال اُٹھایا۔
دوسری جانب وریندر سہواگ نے کہا کہ بابر اعظم اگر کپتانی نہیں کرتے تو میرے حساب سے ٹی ٹوئنٹی ٹیم میں ان کی جگہ بھی نہیں بنتی، وکٹ پر وہ جتنا ٹائم لیتے ہیں یا جو ان کا اسٹرائیک ریٹ ہے۔ ٹیم کی کارکردگی نےہیڈ کوچ گیری کرسٹین کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ کوچ نے آئرلینڈ سے میچ کے بعد ڈریسنگ روم میں کھلاڑیوں کو بتایا کہ ان کے پاس ماڈرن ڈے کرکٹ کی مہارت موجود نہیں، کسی کو نہیں معلوم کہ کون سا شاٹ کب کھیلنا ہے، جب سے جوائن کیا ہے میں نے ٹیم کو متحد نہیں دیکھا، نہ یہ اتحاد میدان میں نظر آیا اور نہ ہی ڈریسنگ روم میں۔
ایسی صورتحال بطور کوچ میں نے کہیں نہیں دیکھی، انہوں نے کھلاڑیوں کو خبردار کیا کہ اگر کھلاڑی ایک ٹیم نہ بنے اور اپنی فٹنس اور اسکلز پر توجہ نہیں دی تو وہ ٹیم کا حصہ نہیں ہوں گے۔ دوسری طرف بابر اعظم کپتانی چھوڑنے کو تیار نہیں، انہوں نے گیند پی سی بی کے کورٹ میں ڈال دی ہے۔ آئر لینڈ کے میچ کے بعد بابر اعظم نے کہا کہ قیادت چھوڑنا پڑی تو فیصلہ کروں گا، لیکن جو بھی کروں گا، ڈر کر نہیں، سب کے سامنے کروں گا۔ قیادت پی سی بی نے دی ہے۔ چیئرمین بورڈ کو لگتا ہے کہ ٹیم میں سرجری کی ضرورت ہے تو ان سے بات کریں گے۔جس ٹیم کے اندر 7سلیکٹرز ہوں اور کوچ بھی غیر ملکی ہو پھر بھی وہ ہارے تو ایسی ٹیم کا کیا فائدہ، میرے خیال میں بورڈ میں تبدیلی لانی ضروری ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔