19 جولائی ، 2024
الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاہم الیکشن کمیشن کی لیگل ٹیم کو ہدایات جاری کی گئیں ہیں کہ اگرسپریم کورٹ کے فیصلے کے کسی پوائنٹ پر عملدرآمد میں رکاوٹ ہے تو وہ فوراً اس کی نشاندہی کریں تاکہ مزید رہنمائی کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے۔
ترجمان الیکشن کمیشن کے مطابق الیکشن کمیشن میں چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے حکم پر عملدرآمدکے سلسلے میں اجلاس ہوا۔
ترجمان نے کہا کہ اجلاس میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاہم لیگل ٹیم کو ہدایات جاری کی گئیں ہیں کہ اگرسپریم کورٹ کے فیصلے کے کسی پوائنٹ پر عملدرآمد میں رکاوٹ ہے تو وہ فوراً اس کی نشاندہی کریں تاکہ مزید رہنمائی کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے۔
اجلاس میں چیف الیکشن کمشنر اور ممبران کو ایک سیاسی جماعت کی جانب سے بےجا تنقیدکا نشانہ بنانے کی شدید مذمت کی گئی اور کمیشن نے استعفے کے مطالبے کو مضحکہ خیز قرار دیا۔
ترجمان الیکشن کمیشن نے کہا کہ کمیشن کسی دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے آئین اور قانون کے مطابق کام کرتا رہے گا۔
ترجمان نے جاری بیان میں کہا کہ الیکشن کمیشن نے کسی فیصلے کی غلط تشریح نہیں کی، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی الیکشن کو درست قرارنہیں دیا، مختلف فورمز نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھا چونکہ پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی الیکشن درست نہیں تھے جس کے نتیجے میں بلے کا نشان واپس لیا گیا لہٰذا الیکشن کمیشن پر الزام تراشی انتہائی نامناسب ہے۔
ترجمان کے مطابق جن 39 ارکان قومی اسمبلی کو پی ٹی آئی کا قرار دیا گیا، انہوں نے اپنے کاغذات نامزدگی میں پی ٹی آئی سے اپنی وابستگی ظاہر کی تھی جبکہ کسی بھی پارٹی کا امیدوار ہونے کیلئے پارٹی ٹکٹ اور ڈکلیریشن ریٹرننگ آفیسر کے پاس جمع کروانا ضروری ہے جو کہ ان امیدواروں نےجمع نہیں کروایا تھا لہٰذا ریٹرننگ آفیسروں کیلئے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ ان کو پی ٹی آئی کا امیدوار ڈکلیئر کرتے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ جن 41 امیدواروں کو آزاد ڈکلیئر کیا گیا ہے انہوں نے نہ تو اپنے کاغذات نامزدگی میں پی ٹی آئی کا ذکر کیا اور نہ پارٹی کی وابستگی ظاہر کی اور نہ ہی کسی پارٹی کا ٹکٹ جمع کروایا لہٰذا ریٹرننگ افسروں نے ان کو آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دی، الیکشن جیتنے کے بعد قانون کے تحت تین دن کے اندر ان ارکان نے رضاکارانہ طور پر سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی۔
الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل میں آئی، سنی اتحاد کونسل کی یہ اپیل مسترد کردی گئی، پی ٹی آئی اس کیس میں نہ تو الیکشن کمیشن میں پارٹی تھی اور نہ ہی پشاور ہائیکورٹ کے سامنے پارٹی تھی اور نہ ہی سپریم کورٹ میں پارٹی تھی۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے نشستیں پی ٹی آئی کو واپس کرنے کا حکم دیا تھا جس کے خلاف (ن) لیگ نے عدالت میں درخواست دائر کی ہے۔