30 دسمبر ، 2024
فوج کے ترجمان کی طرف سے گزشتہ ہفتہ پریس کانفرنس میں ایک بار پھر تحریک انصاف اور عمران خان کا نام لیے بغیر اُن کی ’’انتشاری‘‘طرز سیاست کو سختی سے رد کیا گیا لیکن اس کیساتھ ساتھ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان شروع ہونے والے مذاکرات کو مثبت اقدام کے طور پر لیا گیا۔ بہت سے سننے والوں کیلئے یہ پریس کانفرنس تحریک انصاف کیلئےسخت تھی اور فوج کی اُسی سوچ کی عکاسی کرتی تھی جو پہلے سے تحریک انصاف اور عمران خان کے حوالے سے پائی جاتی ہے۔
لیکن میری ذاتی رائے میں اگر فوج کے ترجمان کے اس بیان کا موازنہ اُن کے اسی سال مئی میں دیے جانے والے بیان سے کیا جائے تو اسٹیبلشمنٹ کی تحریک انصاف سے متعلق پالیسی میں کچھ نرمی نظر آتی ہے۔ اپنے ماضی کے بیان میں فوج کے ترجمان نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ فوج کیلئے تمام سیاسی جماعتیں قابل احترام ہیں لیکن اگر کوئی سیاسی جماعت اپنی ہی فوج پر حملہ کرتی ہے تو اُس سے کون بات کرے گا؟اُنہوں نے کچھ ایسے کہا تھاکہ9 مئی کرنے اور کروانے والوں کو سزا دینی پڑے گی، انتشاری ٹولے سے کوئی بات چیت نہیں ہو گی، سیاسی انتشاری ٹولےکے پاس صرف ایک ہی رستہ ہے کہ صدق دل سے معافی مانگے، نفرت اور انتشارکی سیاست چھوڑنے کا وعدہ کرے جبکہ بات چیت فوج سے نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کے درمیان ہی ہو گی۔
اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں فوج کے ترجمان نے تحریک انصاف کی انتشاری سیاست پر بات کی، 9 مئی کے ماسٹر مائنڈ اور منصوبہ سازوں کو سزا دینے کے متعلق بھی فوج کابیان دہرایا لیکن اب کی بار اُنہوں نے تحریک انصاف کے حوالے سے 9 مئی سے متعلق صدق دل سے معافی مانگنے والی شرط پر کوئی بات نہ کی۔حکومت اور تحریک انصاف کے مذاکرات کے حوالے سے فوج کے ترجمان نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات خوش آئند عمل ہے۔گویا تحریک انصاف کو اپنے لیے سیاسی سپیس اگر حاصل کرنا ہے تو منفی سیاست کو چھوڑکروہ بہتری کی توقع کر سکتی ہے۔ ویسے بھی منفی سیاست اور انتشاری سیاست سے سب سے زیادہ نقصان پاکستان اور تحریک انصاف کا اپنا ہی ہو رہا ہے۔ اب جب مذاکرات شروع ہوچکے ہیں تو سول نافرمانی کی تحریک کو چلانے کی کیا ضرورت ہے۔ اگر ایسی تحریک کامیاب بھی ہوتی ہے تو نقصان تو پاکستان کا ہو گا۔
عمران خان اور تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ پورا پاکستان اُن کے ساتھ ہے، اگر ایسا ہی ہے تو پھر ایسی سیاست کیوں کی جاتی ہے جس کا نقصان پاکستان کو ہی ہو۔ ایسی سیاست کیوں کی جاتی ہے کہ پاکستان کی معیشت کمزور ہو، آئی ایم ایف کا قرضہ پاکستان کو نہ ملے، ملک ڈیفالٹ کی طرف چلا جائے۔
کتنا اچھا ہو کہ عمران خان امریکا کی پاکستان کے میزائل پروگرام پر پابندی کے خلاف آواز اُٹھائیں،اس بیان کی نہ صرف خود مذمت کریں بلکہ اپنی جماعت سے کہیں کہ اس بیان پر باقاعدہ احتجاج کیا جائے۔اس کے علاوہ آئے روز دہشت گردی میں شہید ہونے والے فوجی اور دوسرے اہلکاروں کی قربانیوں کو خود خان خراج تحسین پیش کریں اور اپنے رہنمائوں سے کہیں کہ ان شہیدوں کے خاندانوں کے افراد کے پاس جائیں اور اُنہیں عمران خان کی طرف سے تسلی دیں ، سول نافرمانی کی بجائے بیرون ملک پاکستانیوںسے اپیل کریں کہ وہ اپنی ترسیلات زرکو روکنے کی بجائے پاکستان کو خوب ڈالرز بھیجیں تاکہ پاکستان خوشحال ہو، امریکا سمیت بیرون ملک سے پاکستان کے اندرونی معاملات پر مداخلت کرنے والوں کی مذمت کریں چاہے اس مداخلت کا فائدہ عمران خان کو ہی کیوں نہ ہو۔ ایسا عمران خان ہی خود کو پاکستان کا لیڈر بنا سکتا ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔