02 مارچ ، 2012
کراچی…محمد رفیق مانگٹ… افغانستان میں قرآن مجید کی بے حرمتی کے واقعے نے ابوغریب جیل میں ہونے والی بدسلوکی کے مناظر تازہ کردیئے۔واقعے کو لاپرواہی قرار دینا درست نہیں،امریکی غلطی سے طالبان نے بھرپور فائدہ اٹھایا،ایک معافی سے ملکی مفادات کا تحفظ ہو تو اس میں بے عزتی نہیں ،عراق کی طرح افغانستان میں ڈرامائی کامیابیاں نہیں ملی۔امریکی اخبار’واشنگٹن پوسٹ‘ میں شائع مضمون میں کہا گیا ہے کہ ا فغانستان میں قرآن مجید نظرِا ٓتش کے واقعے نے وائٹ ہاوٴس میں اس صبح کی یاد تازہ کردی جب ابو غریب جیل میں بدسلوکی کی تصاویر سامنے لائی گئی ۔ بگرام ایئر بیس واقعے کو لاپرواہی قرار دے کر اس کا موازنہ ابو غریب جیل میں ملٹری پولیس کے وحشیانہ طرز عمل سے کرنا اخلاقی طور پر درست نہی۔اوباما انتظامیہ جن واقعات کا سامنا کر رہی ہے وہ صرف غلطیاں نہیں بلکہ ان کے مسائل ہیں۔ ایسے واقعات میں صدر کا کردار ملکی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے اور فوج اس کے حکم کی پابند ہے اگر ان مفادات کو ایک معافی سے محفوظ بنایا جاسکتا ہے تو اس میں کسی کو بے عزتی یا انا کا مسئلہ نہیں سمجھنا چاہیے۔ قران مجید کی بے حرمتی کے واقعے کی امریکی غلطی کا طالبان نے قدرتی طور پر بھرپور فائدہ اٹھایاہے۔ صدر اوباما کے ملکی ناقدین اور افغان جنگ کے مخالفین بھی ایسا ہی ردعمل دے رہے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ قرآن مجید کی بے حرمتی کے واقعے نے انسداد عسکریت پسندی کی مہم کو نقصان دیا ہے۔افغانیوں کے دل و دماغ کو جیتنا سوچ سے بالاتر ہے۔افغانستان کے جنوبی علاقوں سے طالبان کی محفوظ پناہ گاہیں اور اسلحے کے ذخیرے زیادہ تر ختم کر دئیے گئے ہیں۔2011میں تشدد کے واقعات میں ایک تہائی کمی دیکھنے میں آئی ۔ ملک بھر میں تین لاکھ افغان فوجیوں اور پولیس اہلکارو ں کو تعینات کردیا گیا۔ امریکی فوجی دستے افغان ہم منصبوں کے ساتھ مشترکہ کارروائیوں میں مشغول ہیں۔عراق کی طرح افغانستان میں ڈرامائی کامیابیاں نہیں ملی تاہم 2014تک صورت حال بہتر ہونے کی امید ہے۔