25 مارچ ، 2013
کراچی…محمدرفیق مانگٹ… امریکی جریدہ ”نیشنل جرنل“ لکھتا ہے کہ پاکستان میں اسٹریٹجک محور کی تبدیلی کے باوجود جوہری پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ پاکستان سلامتی کیلئے عسکریت پسندی کو سب سے بڑا خطرہ قرار دیتا ہے، امریکی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستانی قوم کو درپیش خطرے کے متعلق فوج کا تاثر ختم ہونے کے بجائے تبدیل ہوا ہے، فوج کیلئے عسکریت پسندی کئی درپیش خطرات میں ایک اضافہ ہے ،بھارتی خطرے کے متعلق پاک فوج کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ آج بھی بھارت کے خلاف پاکستانیوں کی سلامتی کی ضامن جوہری ڈیٹرنس ہے۔پیپلز پارٹی سمیت ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اسٹریٹجک محور کی تبدیلی پر متفق ہیں ۔پیپلز پارٹی کے رہنما ء خطے میں نئے اسٹریٹجک محور کا آغاز کرچکے ہیں جس میں وہ بتاتے ہیں کہ بنیاد پرست عسکریت پسند ی ہی اصل خطرہ ہے۔اسلام آباد اور واشنگٹن میں حکام کا کہنا ہے کہ اسٹریٹجک اصطلاح کا اطلاق پاکستان کے ایک سو جوہری ہتھیاروں پر بھی ہوتا ہے کہ اگر حکمران جماعت دوبارہ بر سر اقتدار آگئی تو حساس جوہری ہتھیار آسانی سے غیر مرئی ہاتھوں میں جاسکتے ہیں۔ نواز شریف کو پنجاب میں واضح حمایت حاصل ہے اور آئندہ انتخابات میں ان کی جماعت کے اقتدار میں آنے کے قوی امکانات ہیں۔سلامتی، اقتصادی اور سیاسی محاذوں پر کئی اختلافات کے باوجود نواز شریف بھارت کے ساتھ قریبی اور باہمی تعاون پر مبنی تعلقات چاہتے ہیں ۔ تاہم ا بھی یہ غیر یقینی ہے کہ ملک کی خارجہ پالیسی میں وہ کتنا کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ خارجہ پالیسی پر فوج کا غلبہ ہے ۔ پاکستان نے دو دہائی قبل بھارت کے ساتھ ممکنہ”strategic restraint regime“ پر بات چیت کی شروع کی جس کا مقصدجوہری ہتھیاروں کی تعداد کو منجمد ،ان کی تنصیب کو محدود اوردفاعی میزائل کو روکنے کی تجاویز تھیں۔تاہم بھارت جوہری ایشو پر بات کرنے کو تیار نہیں ہوابلکہ وہ علاقائی سلامتی اور آزادانہ تجارت پر بات چیت چاہتا ہے،بھارت کا اصرار ہے کہ اس کی اسٹریٹجک جوہری توجہ پاکستان کے لئے نہیں بلکہ چین کی وجہ سے ہے۔جریدہ لکھتا ہے کہ پاکستانی فوج اور حال ہی میں تحلیل ہونے والی حکومت نے ہمسایہ ممالک کے ساتھ بڑھتے تعاون اور شفافیت میں دلیری سے ”اسٹریٹجک محور“ کااضافہ ہے۔ لیکن یہ واضح نہیں کہ یہ تبدیلی اسلام آباد کے جوہری ہتھیاروں کو متاثر کرے گی۔مئی کے قومی انتخابی نتائج اس معاملے پر فیصلہ کن ہو سکتے ہیں۔تمام اہم جماعتیں اس پر متفق ہیں کہ وقت آ گیا ہے 2014میں امریکی فوج کے انخلاء سے قبل ے افغانستان کے ساتھ سلامتی سے متعلق امور کو حل کر لیا جائے۔یہ بہت کم واضح ہے کہ اسلام آباد اپنے حریف بھارت کے ساتھ تعلقات مضبوط کرپائے گا اور کیا علاقائی مصروفیت میں جوہری مفاہمت بھی شامل ہوسکتی ہے۔صدر آصف علی زرداری کی جماعت اس تبدیلی کی وضاحت کرتے ہوئے تسلیم کرتی ہے کہ قوم کو درپیش سب سے بڑاخطرہ پر تشدد انتہا پسندی سے ہے ۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے گزشتہ برس برملا اس سوچ کا اظہارکیا تھا۔ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں اس اسٹریٹجک تبدیلی کی حامی ہیں تاہم مسلم لیگ نواز بھارت کے ساتھ جوہری معاملے پر نئی سفارتی رسائی ظاہر کرتی دکھائی دیتی ہے۔اسکے رہنماوٴں نے اشارہ دیا ہے کہ اقتدار میں آنے کی صورت میں بھارت کے ساتھ جوہری استحکام کی بات چیت بحال کرسکتے ہیں۔