22 اپریل ، 2013
اسلام آباد…سپریم کورٹ نے وزارت اطلاعات کے سیکرٹ فنڈ سے18 کروڑ روپے کی ادائیگیاں پبلک کرنے کاحکم دیتے ہوئے فہرست سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔9کروڑ روپے کی ادائیگیوں کے بارے میں فیصلہ بعدمیں کیاجائیگا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے میڈیا کمیشن تشکیل دینے کے لیے حامد میر اور ابصار عالم کی درخواست پر سماعت کی۔وزارت اطلاعات نے سیکرٹ فنڈز کے استعمال کے بارے میں دو فہرستیں سپریم کورٹ میں پیش کر دیں۔ایک فہرست کو عام کرنے جبکہ دوسری کو خفیہ رکھنے کی استدعا کی گئی ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے استفسار کیا کہ کیا دونوں فہرستوں کو الگ الگ کرنے کا کیا مقصد ہے؟ وزارت اطلاعات کے وکیل راجہ عامر عباس نے بتایا کہ دونوں کا آڈٹ نہیں کرایا گیا ، جلد آڈٹ کرا لیا جائے گا۔ فہرست میں جولائی 2011سے اب تک خرچ کی گئی رقم کا ذکر ہے۔ایک سال تین ماہ میں 26 کروڑ 79 لاکھ روپے سے زائد رقم خرچ کی گئی۔وزارت اطلاعات کے ڈائریکٹرطاہر حسن خان نے بتایا کہ آئی ایس پی آر اور آئی ایس آئی کی ہدایات پر بھی رقوم جاری کی جاتی ہیں، دہشت گردی کیخلاف جنگ میں طالبان کے خلاف آرٹیکل لکھوائے، جن کی معلومات خفیہ رکھنا چاہتے ہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے استفسار کیا کہ کیا ان آرٹیکلز پر نام نہیں ہوتے؟طاہر حسن نے کہا کہ آرٹیکل جعلی نام سے لکھوائے جاتے ہیں،مخالفین بھی ایسا ہی کرتے ہیں، ایبٹ آباد آپریشن ہوا تھا ، مختلف آرٹیکل لکھوائے گئے،اس پر پیسے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ سینئر صحافی حامد میر نے کہا کہ قومی مفاد میں تمام تفصیلات کو پبلک ہونا چاہیے، کیا وزارت اطلاعات کہنا چاہتی ہے کہ سیکرٹ فنڈ سے رقم لینے والے ہی محب وطن ہیں، گھوسٹ رائٹرز کی بات کی گئی ہے، وہ اوران جیسے بہت سے صحافی اپنے ناموں سے بات کر رہے ہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ عوام کی جیب سے نکالی گئی رقم کا پتہ ہونا چاہیے کہ کہاں خرچ ہوا؟بتایا جائے کہ یہ رقم کہاں خرچ کی گئی؟ ہم بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ آزادی اظہار کا مطلب یہ نہیں کہ کسی صحافی کو پیسہ لگا کر نکتہ نظر لیا جائے، میڈیا کمیشن کی تشکیل سے متعلق مزید سماعت 25 اپریل کو ہوگی۔