پاکستان
14 مارچ ، 2012

ایجنسیاں وہ کام کر رہی ہیں جو انکا مینڈیٹ نہیں، چیف جسٹس

ایجنسیاں وہ کام کر رہی ہیں جو انکا مینڈیٹ نہیں، چیف جسٹس

اسلام آباد… سپریم کورٹ میں آئی ایس آئی کی جانب سے سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی جس کی سربراہی چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ سماعت کے دوران کیس کے مرکزی کردار یونس حبیب نے سابق آرمی چیف اسلم بیگ اور سابق آئی ایس آئی چیف اسد درانی کے بیانات حلفی کے جواب میں اپنا ایک اور بیان حلفی جمع کرایا جبکہ مقامی اخبار میں آئی بی کی جانب سے 270ملین روپے سیکریٹ فنڈ سے نکلوانے کی خبر کا نوٹس لیتے ہوئے پرنٹر، پبلشر اور رپورٹر کو طلب کر لیا۔ آج کی سماعت میں چیف جسٹس کو براہ راست خط لکھنے پر یونس حبیب کی سرزنش کی گئی اور چیف جسٹس نے اس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ تم بہت بااثر ہوگے لیکن بیان میں ایسے الفاظ نہیں ہونے چاہییں۔ اس پر یونس حبیب نے سپریم کورٹ سے اظہار معذرت کیا۔ چیف جسٹس نے یونس حبیب سے کہا کہ آپ وکیل کی خدمات لے سکتے ہیں جس پر ان کا کہنا تھا کہ جب بھی میرا نام آتا ہے وکیل 15 یا 20 لاکھ فیس مانگ لیتے ہیں۔ سماعت کے دوران حکومت پنجاب بدلنے کیلئے اخبارمیں شائع خبرعدالت میں پڑھی گئی جس پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو متوجہ ہونے کا بھی کہا ۔ خبرکی مطابق انٹیلی جنس بیورو کے سیکریٹ فنڈ سے تاریخ کی بڑی رقم نکالی گئی جو رقم کا استعمال حکومت پنجاب کو گرانے کیلئے کیا گیا تاہم منصوبہ اسلیے ناکام ہواکہ ق لیگ نے وزیراعلیٰ کا عہدہ مانگا تھا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ انٹیلی جنس بیورو کا تو یہ کام بالکل نہیں ، ہم ملک کو کس طرح چلا رہے ہیں، ایجنسیاں وہ کام کرہی ہیں جو انکا مینڈیٹ ہی نہیں، ریاست کے مفادات پر سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دیگر ممالک میں ایجنسیوں کے سیاسی کردار کو ختم کرنے کیلئے کیااقدامات کئے گئے، عدالت کو اس سے آگاہ کیا جائے، آئی بی والی خبر میں تو قومی خزانے کا ذکر ہے اور اس معاملے میں آئی بی کا نام براہ راست آرہا ہے۔ انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ آئی بی سے متعلق آج کی خبر میں شعیب سڈل کا نام بھی آیا ہے، اگر اسے بلایا تو وہ صاف صاف بتادیگا۔ سپریم کورٹ نے خبر کے حوالے سے مقامی اخبار کے پرنٹر، پبلشر اور رپورٹر کو بھی نوٹس جاری کر دیے اور سماعت30مارچ تک ملتوی کر دی۔

مزید خبریں :