22 ستمبر ، 2013
کراچی… محمد رفیق مانگٹ… امریکی جریدہ ”فارن پالیسی“ لکھتا ہے کہ کراچی میں جاری آپریشن شہر کو مفلوج کرنے والے پر تشدد واقعات اور جرائم پیشہتمام گروہوں سے نمٹنے کے لئے انتہائی محدود ہے۔ کراچی ایک ناکام شہر ہے،اس کی لاقانونیت اور تشدد پاکستان کوایک ناکام ریاست ظاہر کرتی ہے اگر موجودہ حکومت کراچی میں مستقل سیکورٹی حل تخلیق نہیں کر سکتی تو کوئی امید نہیں کہ وہ ملکی سطح پر بالکل وہی مسائل حل کرنے کے قابل ہوں گے۔ امریکی جرید ے نے”کراچی کے لئے جنگ “نامی عنوان سے اپنی رپورٹ میں لکھاکہ فوج کی بجائے رینجرز کااستعمال بھی سویلین حکومت کے لئے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا خوف ظاہر کرتا ہے۔حکمران جماعت پیپلز پارٹی نے 2011کے کراچی آپریشن میں فوج کے ا ستعمال کی مخالفت اس خوف سے کی تھی کہ انہیں خدشہ تھا کہ اس طرح ان کی حکومت عدم استحکام کا شکار ہوجائے گی۔نواز شریف بھی شاید انہیں خدشات کا شکار ہیں یا وہ اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں۔رینجرز کے آپریشن سے نواز شریف کے اطمینان کے باوجود کسی کو یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ موجودہ آپریشن کی ایک سیریز شہر کی پر تتشدد فضا کو ختم کر سکتی ہے۔کراچی میں عسکریت پسندوں کے کئی دھڑوں کی موجودگی میں زیادہ امکان نہیں کہ موجودہ آپریشن کراچی میں طویل مدتی حقیقی تبدیلیاں لائے گا ۔موجودہ نظام میں ذاتی مفادات رکھنے والے اکثر جرائم پیشہ گروہ جن میں سیاسی جماعتیں، اور دہشت گرد تنظیمیں بھی شامل ہیں ان کا ایک دفعہ کے آپریشن سے صفایا ممکن نہیں۔یہ بھی سچ ہے کہ کراچی میں تشدد کو خاموش کرنے کے لئے کچھ مجرموں کو ٹارگٹ کرنے کی سابقہ کوششیں ناکام ہو گئیں لیکن موجودہ آپریشن میں سیاسی جماعتوں کے ارکان کی گرفتاری بھی شامل ہے ، شہر میں رینجرز کا بھیجنا اس تشدد کی روک تھام کے لئے ایک بہتر اقدام تصور ضرورکیا جاتا ہے لیکن مستقل سیکورٹی اور ادارہ جاتی حل کے بغیرامن وامان کا قیام ممکن نہیں ۔یہ خدشات اپنی جگہ موجود ہیں کہ ایسے آپریشن کی تکمیل کے فوری بعد تشدد اور بھتہ خوری کراچی میں دوبارہ شروع ہو جائے گی۔کراچی سمیت ملک بھر میں طویل مدتی اور پائیدار سیکورٹی اور سیاسی کوششوں کی ضرورت ہے جو تمام مجرم گروہوں جن میں بد عنوان اور مجرم سیاسی جماعتیں بھی شامل ہوں انہیں ٹارگٹ کیا جائے۔بدقسمتی سے، اس وقت موجودہ حکومت کے پاس نہ ہی وسائل اور نہ ہی اس طرح کی کوئی منصوبہ بندی ہے ۔کراچی میں موجودہ سیکورٹی کی صورت حال کئی طریقوں سے پاکستان مجموعی طور پر مسائل میں سے ایک ہے، تیزی سے بڑھتی آبادی،گتھم گتھا نسلی گروپ ، فرقہ وارانہ تشدد، دہشت گرد گروہوں کی یقینی موجودگی، سیاسی جماعتوں سے وابستہ عسکریت پسند، انفرااسٹرکچر کی شدید کمی اور منظم بدعنوانی جیسے مسائل سمیت کراچی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔جریدہ لکھتا ہے کہ2012میں2500سے زائد ہلاکتوں نے کراچی کو دنیا کا خطرناک میگا سٹی بنا دیا،بھارتی میگا سٹی نئی دہلی سے کراچی کا موازنہ کیا جائے تو 2012میں وہاں521افراد قتل ہوئے۔جریدہ لکھتا ہے کہ کراچی کئی سال سے مسائل اور تنازعات کا شکار ہے۔ 2011میں بھی رینجرز کو گینگ کے خاتمے کے لئے مخصوص ہدف کا آپریشن دیا گیا۔ظاہر ہے دو سال بعد وہ آپریشن ناکام ثابت ہوا کیونکہ تشدد جاری رہا۔ بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان بھی کراچی میں معمول کے واقعات ہیں لیکن ان جرائم میں نسلی بنیاد پر مافیاز یا دہشت گرد گروپوں کا ہی صرف ہاتھ نہیں بلکہ کراچی میں تحریک طالبان پاکستان بھی اپنی کارروائیاں کر رہی ہیں۔ تاہم ان واقعات میں ملوث عناصر سیاسی جماعتوں سے وابستہ ہیں۔ یہ حقیقت کراچی کے گہرے اور منظم مسئلے کی نشاندہی ہے کہ تمام مفاداتی گروہوں، جو اس نظام کا حصہ ہیں یا نہیں وہ عسکریت پسندوں سے گٹھ جوڑ کیے ہوئے ہیں،سیاست میں بندوق کلچر کوئی نیا نہیں یہ اتنا ہی رچا بسا ہے جتنا پاکستان میں فوجی بغاوتوں کا۔ ذاتی مفادات کی خاطر اس شہر میں پرتشدد عناصر کورکھ سکتے ہیں۔اس صورت میں پولیس اور فوج ان پر اپنا قابو پانے کیلئے ان گروپوں پر حکومت کرسکتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق رواں ماہ کے اوائل میں وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے کراچی کے تشد دکنٹرول کرنے میں پولیس ناکامی کے اعتراف کے بعد ٹارگٹڈ آپریشن کیلئے سندھ رینجرز کو با اختیار بنایا۔جاری آپریشن کا مقصد کراچی میں امن بحالی ہے لیکن کچھ گرفتاریوں کے بعد ہی وسیع پیمانے پر کاروبار کی بندش اور تشدد کی شدت میں اضافہ ہوا۔ نواز شریف ان کارروائیوں کی پیش رفت پر اطمینان کا اظہار پہلے سے ہی کر چکے ہیں۔