پاکستان
21 مارچ ، 2012

توہین عدالت کیس، 15ججز اپنی رائے دے چکے، جسٹس آصف کھوسہ

توہین عدالت کیس، 15ججز اپنی رائے دے چکے، جسٹس آصف کھوسہ

اسلام آباد… سپریم کورٹ میں وزیر اعظم کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی جس کے دوران جسٹس آصف کھوسہ نے وزیراعظم کے وکیل اعتزاز احسن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اعتزاز صاحب، سات ججز کے بنچ نے فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ اور آٹھ ججز نے اس فیصلے کو برقرار رکھا، اس طرح تو پندرہ ججز نے اپنی رائے دے دی ہے، آپ سوچ لیں ۔ کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی اور روزانہ سماعت کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ آج جب سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل نے مزید گواہان اور ثبوت پیش نہ کرنے کا اعلان کر دیا جس پر عدالت نے شہادتیں مکمل ہونے کا آرڈر لکھوا دیا اور اعتزاز احسن نے دلائل شروع کیئے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک زرداری صدر ہیں، فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہوسکتا، سابق اٹارنی جنرل اور سابق سیکریٹری قانون نے خط نہ لکھنے کی ایڈوائس دی، ان دونوں میں تو کوئی توہین عدالت کا ملزم نہیں، اکیلے وزیر اعظم کو توہین عدالت کا مجرم ٹھہرایاگیا۔ ان کا کہنا تھا کہ گیا۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے جواب کو غلط سمجھا گیا، یہ تاثرلیا گیا کہ وزیراعظم نے عدالتی فیصلے پر عمل سے انکارکیا۔ انہوں نے کہا کہ میں فیصلے پر نظر ثانی نہیں مانگ رہا، میں یہ بھی نہیں کہہ رہا کہ عدالتی فیصلہ غلط ہے میرا کہنایہ ہے کہ جب تک آصف زرداری صدر ہیں انہیں عالمی استثنیٰ حاصل ہے اور وزیر اعظم کو بھی یہی ایڈوائس دی گئی کہ صدر کو عالمی استثنیٰ حاصل ہے۔ سماعت کے دوران جسٹس آصف کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ غیر ملکی اکاوٴنٹس صرف صدر کے نہیں دیگر لوگوں کے خلاف بھی تو تھے، ان افراد کی حد تک کارروائی کیوں نہ ہوئی۔ اس پر وزیراعظم کے وکیل اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر بھی بات کرونگا، جب عدالت نے 6آپشنز کا فیصلہ دیا تو یہ یہ تاثر پیدا ہو گیا کہ طبل جنگ بج گیا اور وزیراعظم نا اہل ہو گئے۔ اس سے قبل جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیئے کہ سترہ رکنی بینچ کے فیصلوں سے باہر نہیں جاسکتے۔ وقفے کے بعد وزیر اعظم کے وکیل اعتزاز احسن نے سپریم کورٹ کی موجودہ بینچ پر عدم اطمینا ن کا اظہار کر دیا۔ سماعت کے دوران دلائل دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ کرمنل ٹرائل ہے، شہادتوں پر فیصلہ کرنا ہے، اخبارات میں جو آتا ہے اس پر فیصلے نہیں کیئے جاسکتے،عدالتیں مفروضے پر کارروائی نہیں کرتیں، عدالت کے پاس ٹھوس شواہد ہونا ضروری ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم کو عدالتی حکم کا 16 جنوری 2012 کو پتا چلا، وزیر اعظم کو جو ایڈوائس آئی انہوں نے کہا کہ عدالت کو آگاہ کردیں۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ قصور وار ہوں تو سزا دیں ، بے قصور ہوں تو بری کردیں۔ اس پر جسٹس ناصر الملک نے کہا کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ بینچ مقدمے کی سماعت نہ کریں، اس پر اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ جی ہاں، جس بینچ نے نوٹس دیا اور مقدمہ سے پہلے فیصلہ سنا دیا وہ فیصلہ نہ کرے۔ اس پر جسٹس آصف کھوسہ نے ریمارکس دیے اس طرح تو آئندہ ہر کوئی یہی کہے گا کہ جس بینچ نے نوٹس دیا وہ سماعت نہ کرے۔ اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ جج بھی میری طرح انسان ہیں، ان سے بھی غلطی ہو سکتی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ میراموکل ایک پیر اور گدی نشین ہے اور بینچ نے میرے موکل کے بارے میں بہت سخت الفاظ استعمال کیے گئے۔جسٹس آصف کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ عدالت نے سخت الفاظ استعمال نہیں کیے، عدالت سخت ہوتی تو آپ کو اتنے مواقع فراہم نہ کرتی، ہم نے بھرپورٹرائیل کا موقع فراہم کیا۔ بعد ازاں سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی اور روزانہ سماعت کا فیصلہ بھی کیا گیا۔

مزید خبریں :