30 نومبر ، 2013
کراچی… اختر علی اختر… اردو دنیا کے ممتاز ادیب پروفیسر ستیہ پال آنندنے کہا کہ سب ترجموں کی اہمیت بہت زیادہ ہے اگر آپ اپنے پڑوسیوں کی زبان میں بات نہیں کرسکتے تو آپ اجنبی رہ جائیں گے ترجمے کیلئے ضروری ہے کہ آپ کو اس تہذیت کا علم ہو جس کا ترجمہ آپ کررہے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ جس بھی کتاب کا ترجمہ کیا جارہا ہو اس جہاں کے حالات وواقعات کا بھی خیال رکھا جائے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے چھٹی عالمی اردو کانفرنس کے تیسرے روزبہ عنوان” اردو ادب،جدید رجحانات کے تناظر میں “ اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔مجلس صدارت میں پروفیسر شمیم حنفی اور اسد محمد خان تھے ۔نظامت کے فرائض ڈاکٹر ضیاء الحسن نے انجام دیئے ۔پروفیسر ستیہ پال نے مزید کہاکہ غالب کے دیوان کا ترجمہ فارسی سے انگریزی میں کیا گیا اور دو سطوں پر ترجمہ کرنا تھا ایک لفظ با لفظ اور دوسرا متن کے حساب سے جب وہ تیار ہوگئی تب سے آج تک اس کتاب کو لائبریری سے کسی نے ایشو نہیں کرایا تو میرے حساب سے لفظ با لفظ ترجمہ بے معنی ہے صدف مرزا کا مقالہ سن کر مجھے خوشی ہوئی۔دوسرا عنبرین کا مقالہ بھی بہت خوب تھا۔اب تک غزل کی وقعت وہ ہے جس میں آج بھی لوگ داد دے سکتے ہیں۔ غز ل کی شکل بدلی ضرور ہے مگر جدید یت نے اس بات پر ہی زور دیا کہ غزل کے مضامین جدید ہو چلیں ۔نجیہ عارف نے ”جدید ادب کے عالمی جہت“پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں سب سے پہلے آرٹس کو نسل کا شکریہ ادا کروں گی میں پہلی دفعہ اس کانفرنس میں شرکت کی غرض سے اسلام آباد سے خصوصی طور پر آئی ہوں ۔ میرے اس مقالے کا اک ذیلی عنوان کوک اسٹودیو بھی ہے۔ زبان نہ ہوتی تو ادب نہ ہوتا ، زبان کی اہمیت ادب کی اہمیت ہے ۔ادب کی ایک قسم چوری شدہ خیالات کو ٹھوک بجاکے حاصل کی جاتی ہے ۔ہم اپنے سچ سے گریزاں ہیں ۔ خیال ایک گہری حقیقت ہے اور اس حقیقت میں ادب کو پرکھا جانا چاہیئے۔کیا ہمارا جدید ادب ہمارے کوک اسٹودیوکی تعمیر کیلئے تیار ہے۔ کاش سارے انسان ،پرندے و حیوان ،دھوپ ہوا اور چاندنی میں جینا سیکھ لیں ۔بھارت سے تشریف لائے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر شمیم حنفی نے کہا کہ میں ابھی تک نجیہ عارف کی گفتگو کے سحر میں ہوں۔ آج کل نظریات کی ایسی افراتفری ہے کہ ہم سب بھول بیٹھے ہیں میں اپنے حال ہی سے اپنے مستقبل کا اندازہ لگا سکتا ہوں ۔واقعی خیال ایک حقیقت ہے اور ہمیں اسکا جائزہ سوچ سمجھ کے لینا چاہیئے۔ہمیں اپنے وجو د کی کھڑی کو کھول کے رکھنا چاہیئے ۔ایڈورٹائزمنٹ ہم سے ہمارے انتخاب کا حق چھین لیتی ہے۔غز ل اردو شاعر ی کی آب رو ہے اور مقبول ترین صنف ہے۔ ترجمہ ایک زبان کے دائرے کو دوسری زبان کے دائرے میں لے جاتا ہے اور ترجمہ ایک اخلاقی عمل بھی ہے۔ سرسید احمد خان سے لیکر ہم نے تراجم کی عظیم روایات قائم کی ہیں ۔اس روایت کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ ادب کی خانہ بندیوں کو ختم کرنے کیلئے تراجم کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ۔عنبریں حسیب عنبر نے ”جدید غزل 21ویں صدی میں “کے موضوع پر دلچسپ پیرائے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرے والد ہمیشہ تلقین کرتے ہیں کہ اگر آپ کے پاس کہنے کیلئے کچھ نہیں ہے تو بہتر ہے کہ خاموش رہو اوریہاں ایسے موضوعات پر اکثر مقالات پڑھے جاتے ہیں اور ہم مقالہ اس لئے لکھ کر نہیں لائے کہ کانفرنس میں اصل روح سوالات وجوابات ہوتے ہیں اور یہ کسی بھی کانفرنس کی کامیابی ہوتی ہے ۔رجحانات اور موضوعات کا تعین کرتے ہیں ۔جدید غزل کا پچھلے 25سے 30سال کا عرصہ دیکھیں تو انسان کی سوچ سے زیادہ انسان کی آنکھوں کی اہمیت زیادہ دکھائی دیتی ہے۔صدف مرزا نے جدید ادب میں ترجمے کی ضرورت پر مختصر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ ہم دنیا کے جدید ادب کو اردو کے قلب میں دھالیں ،ڈنماک میں اردو تیزی سے فروغ پارہی ہے اور ڈنمارک کا ادب وہاں مقیم پاکستانی بڑی خوبی سے اُردو میں منتقل کررہے ہیں۔