پاکستان
30 نومبر ، 2013

سندھی اور اردو کی جڑیں تقسیم سے پہلے سے جڑی ہوئی ہیں، امداد حسینی

سندھی اور اردو کی جڑیں تقسیم سے پہلے سے جڑی ہوئی ہیں، امداد حسینی

کراچی…اختر علی اختر…سندھی زبان کے ممتاز ادیب و شاعر امداد حسینی نے کہا ہے کہ اردو اور سندھ دونوں مجھے اپنی ذات کے حصے لگتے ہیں، ہم لکھنے والے ٹوٹے ہوئے تاروں کو جوڑتے رہے ہیں، مجھے فیض کو تجربہ کرنے میں جب بھی مشکل ہوئی ہے میں نے محسوس کیا کہ شاہ لطیف میری مدد کررہے ہیں کیونکہ لطیف کی شاعری پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ وہ اردو کے جملوں اور الفاظوں کے متن کا استعمال کرتے تھے، اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ ساری زبانوں کے الفاظ مشابہ ہوتے ہیں اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم زبانوں کو قریب لانے والوں میں سے بن جائیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے عالمی اردو کانفرنس کے تیسرے روز دوسرے سیشن میں ”اردو اور سندھی کے تاریخی و لسانی رابطے“ کے موضوع پر گفتگوکرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر عطیہ داؤد، مظہر جمیل، فہمیدہ ریاض، قاسم بگھیو، سحر امداد،ڈاکٹر ایوب شیخ بھی موجود تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سندھی اور اردو کی تاریخ روابط کی بہترین مثال ہمارا یہاں آنا ہے۔ تاریخی تغیرات اور تیکنیکی طور پر سندھی اور اردو زبان کی جڑیں اس زمانے سے جڑی ہوئی ہیں، جو آزادی سے بہت پہلے کی ہیں،1937ء میں معاشی طور پر سندھی کو کیوں دیکھیں،یہ رابطے دونوں طرح ذاتی و کاروباری طرح سے رائج تھی۔ان کا کہنا تھا کہ سندھی شاعروں نے ریختہ میں شاعری کی شاعری کی صنف کوانہوں نے ریختی کہا،18ویں صدی میں بھی سندھی شاعر ی میں اردو کی شاخیں ملتی ہیں کیونکہ ان دونوں کے درمیان درس عشق ملتا ہے،اس زمانے کی شاعر ی کو آگے دیکھیں تو پرانے الفاظ آج بھی موجو د ہیں جیسے دیوار کو بھٹ کہتے ہیں،پہلے بھٹ کہا جاتا تھا۔ الیاس عشقی نے کہا کہ ”موج موج مہران“کتاب پڑھ کر لگتا ہے کہ اردو اور سندھی کے رابطے کس قدر قدیم ہیں۔سحر امداد نے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ زبان زندگی گذارنے کا ایک آلہ ہے ،زبان کی سرحدیں اور مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں،یہ سب ایک پیڑ کی شاخیں ہیں، بالخصوص وادی مہران کی تمام زبانوں کی جڑیں کافی گہری ہیں ،اردو اور سندھی زبانوں کے روابط کو ہم 1947ء کے بعد سے کیوں دیکھتے ہیں؟یہ بحث لاحاصل ہے۔ان دونوں کا ملاپ محبت اور اخوت تقسیم ہند سے بہت پہلے کاہے ،اردو کا سندھی سے تعلق جب سے ہے جب اردو ریختہ کہلاتی تھی۔سید مظہر جمیل نے کہا کہ ”اردو اور سندھی کے تاریخی اور لسانی رابطے“پر آج تمام مقررین نے سیر حاصل گفتگو کی ہے،سندھی کے حروف تہجی کی تعداد 52ہے جبکہ اردو کے 32ہیں اور 32میں سے ژکے علاوہ 21حروف تہجی سندھی زبان میں ہیں، ہر تین لفظوں میں سے ایک لفظ اردو جیسا ضرور ملتا ہے، اردو سندھی کے پھیلاؤ میں اردو اور سندھی ادیبوں،مفکروں اور شاعروں نے اہم کردار ادا کیا ہے، دونوں زبانوں کے درمیان اشتراک عمل کا خمیر شامل ہے،میر ی آٹھ کتابوں میں سے 4کتابیں تاریخ سندھ پہ ہیں،سندھی کے پہلے دیوان شاعر قاضی قاضی تھے جو مغلیہ دور کے اوائل میں ٹھٹھہ کے تاریخی شہر میں تھے، اردو زبان خوش قسمت ہے کہ شاہ لطیف بھٹائی کے تمام سندھی شاعروں کو شیخ ایاز نے اردو میں ترجمہ کیا۔جو اچھی کہانی سندھی میں چھپتی ہے اس کا اردو میں ترجمہ ہوجاتا ہے اور جو اچھی کہانی اردو میں چھپتی ہے اس کا سندھی میں ترجمہ ہوجا تا ہے۔عطیہ داؤد نے کہا کہ اردو اورسندھی کے رابطوں کو ہجرت کی وجہ سے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا،سندھ کی تاریخ میں اردو کو اپنانا مشکل نہیں تھاکیونکہ وہ زبان پہلے ہی کاروباری زبان بن چکی تھی، اس لئے اردو بولنے والوں نے سندھی کو سیکھناضروری نہیں سمجھا،اردو بولنے والوں کو کسی طور پر ضرورت پیش نہیں آئی کہ وہ سندھی سیکھیں مگر پھر اسکولوں میں سندھی پڑھائی جاتی تھی اس لئے کچھ سمجھ بوجھ بچوں کو آگئی ،اردو زبان کو ہم نے اس طرح اپنایا کہ اردو میڈیا پر اکثر سنی جاتی تھی اس لئے اردو ہمارے وجود میں سماء گئی،یہ رنجشیں اردو اور سندھی بولنے والوں کے اندر موجود ہیں، اس کی وجہ سیاسی بہاؤ اور سیاسی وجوہات تھیں کہ لوگوں نے اکثر اس تلخی کا فائد ہ اٹھایا، اس وجہ سے رنجشیں بڑھتی چلی گئیں،بھٹائی کے دور میں غزلیں اردو میں ملتی ہیں،دوسرا دور جو کہ سچل سرمست کا ہے اس میں بھی اردو شاعری ملتی ہے۔ ڈاکٹر قاسم بھوگیونے اپنی گفتگو میں کہا کہ جن لوگوں نے گفتگوکی ہے ان کی تعریف کروں گا ،لسانی رابطہ ایک بہت بڑا موضوع ہے ،پوری دنیا کی کوئی زبان خالص نہیں ہے،ہر زبان میں دوسری زبان کا لفظ شامل ہے،جن لوگوں نے زبانوں کو خالص رکھا وہ زبانیں ختم ہوگئیں اور آج بھی جو لوگ چاہتے ہیں کہ ان کی زبان خالص رہے وہ بھی ختم ہوجائے گی ،اردو پاکستان کے لوگوں کو جمع کرتی ہے،یہاں بیٹھ کر ہمیں چاہیے کہ فیصلہ کریں کہ سب زبانوں کو اپنا نا چاہئے،سندھی زبان کیلئے سندھی لوگو ں نے بہت محنت کی کیونکہ اس زبان کو پذیرائی نہیں ملی ۔ معروف شاعرہ فہمیدہ ریاض نے موضوع پر گفتگو دلیرانہ انداز میں شروع کرکے داد وصول کی۔انہوں نے کہا کہ ہم اس موضوع کو ایک اچھا اور بہتر رخ دے سکتے ہیں ،سندھی زبان اردو کے مقابل میں زیادہ قدیم ہے،دسویں صدی عیسوی تک سندھی کافی ارتقا پاچکی تھی اور اردو اپنے ابتدائی ارتقا سے بھی آگے نہ تھی ،سچل سرمست کے کلام میں اردو ہندوستانی لب و لہجے میں نظر آتی ہے ۔سندھی قدیم دور میں سولہ رسم الخط میں لکھی جاتی تھی۔ان میں ناگری،لندھا رسم الخط اہم تھے ،اسی طر ح اردو ابتدا میں عربی رسم الخط میں لکھی جاتی رہی ،1855ء میں پہلا اخبار مطلع خورشید سندھ میں، سندھی اور فارسی زبان میں شائع ہوا تھا ،سندھی زبان سے اردو زبان سے گہرا ربط قیام پاکستان کے بعد ہی سے ہوا ہے،سندھی لوک گیت خوشی شادی و بیاہ اکے مواقع پر اردو بولنے والے گانے ہیں ،پھر بھی اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ان دونوں زبانوں کے مابین مزید روابط ہوں اور آرٹس کونسل میں سند ھی زبان میں بھی کانفرنس ہونی چاہئے۔صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے اختتامی کلمات تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم مکمل اپنے اندر یہ Passionخوش دلی سے قبول کرلیں کہ سب ہماری زبانیں ہیں، محبتوں کی زبانیں ہیں،نفرتوں کو زبانوں کے ذریعے کم کیا جائے بلکہ مستقل ختم کردیا جائے۔

مزید خبریں :