23 اپریل ، 2025
گزشتہ ستمبر، جب پنجاب میں گندم کی بوائی کا موسم قریب آ رہا تھا، بہاولنگر سے تعلق رکھنے والے 39 سالہ کسان ایاز سمیع اپنے گھر میں بیٹھے ٹیلی ویژن پر پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف کی تقریر غور سے سن رہے تھے۔
وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے کہا، ”میں کسانوں کو یہ کہنا چاہتی ہوں ، آپ بھی جب کسان سے فیلڈ میں جا کے بات کریں تو ضرور اس کو کہیں کہ بے دھڑک گندم لگائے، میں ان کو انشاءاللہ تعالیٰ نقصان نہیں ہونے دوں گی۔“
اس وعدے کے بعدپنجاب حکومت نےایسے اشتہارات چلائے جن میں کسانوں کو گندم کی کاشت بڑھانے پر مفت ٹریکٹر جیسی مراعات کی پیشکش کی گئی۔
اعلان سے حوصلہ پا کر، ایاز سمیع جو طویل عرصے سے وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف کی جماعت، پاکستان مسلم لیگ (ن)، کے حامی رہے ہیں نے اپنی 100 ایکڑ اراضی میں سے 70 ایکڑ پر گندم کاشت کر دی۔
تاہم اپریل آتے آتے، جب سنہری گندم کی فصل کٹائی کے لیے تیار کھڑی تھی، پنجاب حکومت خاموشی سے اپنے کیے گئے وعدے سے منحرف ہو گئی۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کے ساتھ طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت، وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے کئی دہائیوں پرانی اس پالیسی کو ختم کر دیا ہے جس کے تحت گندم کے کاشتکاروں کو مارکیٹ کے نقصانات سے محفوظ رکھنے کے لیے کم از کم امدادی قیمت (MSP) مہیا کی جاتی تھی۔
ایازسمیع جیسے کاشتکاروں کے لیے، یہ فیصلہ ایسے لگا جیسے ان کے پیروں تلے سے زمین کھینچ لی گئی ہو۔
ایاز سمیع نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، ”کھاد جیسے مہنگے زرعی اخراجات کی وجہ سے 40 کلوگرام گندم کی پیداواری لاگت کم از کم 3 ہزار روپے آتی ہے،جبکہ اوپن مارکیٹ میں ہمیں جو قیمت مل رہی ہے وہ صرف 1,800سے 2,200 روپے فی 40 کلوگرام ہے۔“
پچھلے سال بھی صوبائی حکومت نے چھوٹے کسانوں سے براہِ راست گندم خریداری کا وعدہ کیا تھا، لیکن بعد میں اس وعدے سے پیچھے ہٹ گئی۔
اس فیصلے کے واپس لیے جانے سے پنجاب بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا اور ہزاروں کسان سڑکوں پر نکل آئے۔
دی نیوز سے بات کرنے والے کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ سخت مایوسی کا شکار ہیں اور اگلے سیزن میں گندم نہیں اگائیں گے جب تک حکومت 4ہزارروپے فی 40 کلوگرام کے حساب سے کم از کم قیمت کی ضمانت نہ دے تاکہ وہ اپنے اخراجات پورے کر سکیں اور کاروبار کو چلتے رہنے دیں۔
بہاولپور کے 42 سالہ نواز بلوچ، جنہوں نے اپنی 10 ایکڑ زمین پر گندم کی بوائی کی، اپنی فصل کے بارے میں مکمل طور پر بے یقینی کا شکار ہیں کہ آخرکار کیا کریں۔ انہوں نے تلخ لہجے میں کہا،”کیا مسلم لیگ (ن) ہم کسانوں کے خلاف ہے؟اگر حکومت نے ہماری مدد نہ کی تو اگلے سال میں صرف اپنے لیے ہی گندم اگاؤں گا۔“
وفاقی وزارت برائے نیشنل فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ کے مطابق زراعت پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، جس کا ملکی مجموعی پیداوار (GDP) میں تقریباً 23 فیصد حصہ ہے، جبکہ پنجاب ملک کی مجموعی گندم کا تقریباً 76 فیصد پیدا کرتا ہے۔
کسانوں اور ماہرین کا پنجاب حکومت کے ریلیف پیکج پر ردعمل
قیمتوں میں شدید کمی پر بڑھتے ہوئے عوامی ردعمل کے پیشِ نظر، وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے 16 اپریل کو گندم کے کاشتکاروں کے لیے ایک’ریلیف پیکیج‘ کا اعلان کیا، جس میں شامل ہیں: کسان کارڈ ہولڈرز کے لیے 15 ارب روپے پر مشتمل گندم سپورٹ فنڈ، رواں سال کے لیے آبیانہ اور فکسڈ ٹیکسز سے استثنیٰ، الیکٹرانک ویئرہاؤس رسید (EWhR) نظام کا آغاز اور گندم و آٹے کی بین الصوبائی فروخت پر عائد پابندی کا خاتمہ۔
بعد ازاں، 21 اپریل کو وزیر اعلیٰ نے کسانوں کے لیے فی ایکڑ 5 ہزار روپے کی اضافی براہِ راست نقد امداد کی منظوری دی۔
تاہم ،بہت سے کسانوں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات اصل بحران سے نمٹنے کے لیے ناکافی ہیں۔
اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے گندم کے کاشتکار ذوالفقار علی، جو وزیر اعلیٰ کے کسان کارڈ کے حامل ہیں ،جس کے تحت کسانوں کو بلا سود قرضے فراہم کیے جاتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ یہ کارڈ اب ایک ”قرض کا جال“ بن چکا ہے۔
ذوالفقارعلی نے بتایا، ”میں نے گزشتہ سال اس کارڈ کے ذریعے 1 لاکھ 50 ہزار روپے کا قرض لیا تھا، اسے واپس کرنے کی آخری تاریخ 30 اپریل ہے ، یعنی عین گندم کی کٹائی کے دوران، میرے پاس تو اپنے بچوں کی سکول فیس دینے کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں۔“
پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری، فاروق طارق نے حکومت کے پیکج کو متضاد اور ناکافی قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ ”ایک طرف آپ گندم کی مارکیٹ کو ڈی ریگولیٹ کر رہے ہیں اور دوسری طرف روٹی جیسی مصنوعات کی قیمتیں مقرر کر رہے ہیں۔“
ماضی میں، وزیرِ اعلیٰ اور ان کے والد، سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے غذائی قیمتوں کو سیاسی ترجیح کے طور پر اپنایا تھا۔ پچھلے سال، انہوں نے روٹی کی قیمتوں کا خود جا کر معائنہ کرنے کی ویڈیوز جاری کی تھیں۔
ان کی کوششوں کو پنجاب اسمبلی کے ذریعے 2024 میں منظور ہونے والےپرائس کنٹرول آف ایسنشل کموڈیٹیز ایکٹ کے تحت باقاعدہ شکل دی گئی، جو حکومت کو اختیار دیتا ہے کہ وہ غذائی اشیاء کی حکومت کے مقرر کردہ قیمتوں سے تجاوز کرنے والوں کو جرمانے اور 3 سال تک قید کی سزائیں دے سکے، جن میں گندم، آٹا اور روٹی شامل ہیں۔
حکومت کی جانب سے کسانوں کو آبیانہ سے مستثنیٰ کرنے کے اعلان کے بارے میں، کئی کسانوں نے دی نیوز کو تصدیق کی کہ مقامی انتظامیہ نے یہ ٹیکس پچھلے ماہ ہی وصول کر لیا تھا۔
دیگر کسانوں نے اس دعوے کو چیلنج کیا کہ اب صوبوں میں گندم آزادانہ طور پر فروخت کی جا سکتی ہے۔ کسان ایاز سمیع نے کہا، ”ہم [چھوٹے کسانوں] کے پاس پنجاب سے باہر گندم فروخت کرنے کے لیے نقل و حمل یا نیٹ ورک نہیں ہے۔“
جیسے کہ بہت زیادہ تشہیر شدہ 15 ارب روپے کا گندم سپورٹ فنڈ، جب 5 لاکھ 42 ہزار کسان کارڈ ہولڈرز میں تقسیم کیا جائے گا، تو ہر کسان کو صرف 27 ہزار روپےملیں گے ایک ایسی رقم جسے بعض کسانوں نے ” مذاق“ قرار دیا۔
کراچی میں مقیم فوڈ سیکیورٹی کے تجزیہ کار اور ریسرچر عادل منصور نے کہا کہ 27 ہزار روپے تو بمشکل کسانوں کو درپیش موجودہ نقصانات کا ایک چھوٹا سا حصہ ہی پورا کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ”موجودہ قیمتوں کے مطابق، جو 40 کلو کے 2ہزارروپے ہیں، کسان گزشتہ سال کی قیمتوں کے مقابلے میں 3 لاکھ سے 4 لاکھ روپے تک کی آمدنی کے نقصان کا سامنا کر رہے ہیں، یہ کوئی امدادی پیکج نہیں، یہ تو ایک بڑے زخم پر محض دکھاوے کی پٹی ہے۔“
اس پیکج کا ایک اور اہم جزو، الیکٹرانک ویئر ہاؤس رسید(EWR) کا نظام ہے، جو کسانوں کو سرکاری گوداموں میں 4 ماہ تک گندم ذخیرہ کرنے اور بینک آف پنجاب کے ذریعے اناج کی مارکیٹ ویلیو کے 70 فیصد تک قرض حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
عادل منصور کے مطابق کاغذوںپر یہ منصوبہ ترقی پسند دکھائی دیتا ہے، لیکن یہ زمینی حقائق اور اصل مسئلے سے بہت دور ہے۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا،”مفت ذخیرہ اچھا تاثر دیتا ہے، لیکن چھوٹے کسانوں کو سب سے زیادہ فوری نقد رقم کی ضرورت ہے، نہ کہ تاخیر سےہونے والی ادائیگیوں کی۔“
تاہم، عادل منصور نے وضاحت کی کہ وہ زراعت میں عوامی شعبے کے کردار کو کم کرنے کے خلاف نہیں ہیں، جسے انہوں نے طویل عرصے سے ضروری قرار دیا، لیکن ان کا کہنا تھا کہ یہ اقدام مرحلہ وار اور شفاف طریقے سے کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ”حکومت کا موجودہ رویہ کسی واضح اقتصادی نظریے یا مربوط اصلاحات کے وژن کو ظاہر نہیں کرتا، صرف قیمتوں پر قابو پانے کی جنونیت ہے۔“
انہوں نے کہا کہ اس کے برعکس پنجاب حکومت نے دسمبر 2024 سے مارچ 2025 کے دوران بڑی مقدار میں گندم مارکیٹ میں جاری کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ کٹائی کے سیزن سے قبل آٹے کی قیمتوں کو قابو میں رکھا جا سکے، جس کے نتیجے میں مارکیٹ میں گندم کی بہتات ہوگئی اور قیمتیں مزید 20 فیصد تک گر گئیں۔جبکہ صوبے کی جانب سے گندم اور آٹے کی برآمد پر عائد پابندی بھی نرخوں کو کم کر رہی ہے۔
عادل منصور نے کہا، ”ان میں سے کوئی بھی فیصلہ یہ ظاہر نہیں کرتا کہ حکومت واقعی مارکیٹ کو قیمتوں کا تعین کرنے کی آزادی دینا چاہتی ہے۔“
پنجاب کے وزیر زراعت عاشق حسین کرمانی نے ”دی نیوز“ کو بتایا کہ 15 ارب روپے کی رقم محض ابتدائی مرحلے کے لیے مختص کی گئی ہے، جو صرف ان کسانوں کے لیے ہے جن کے پاس ساڑھے 12 ایکڑ سے کم زمین ہے۔ یہ رقم موجودہ کسان کارڈ ہولڈرز کی تعداد جو 5 لاکھ 42 ہزار ہے، کی بنیاد پر مقرر کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ” مالی امدادی پروگرام کی تفصیلات ابھی حتمی شکل دی جا رہی ہیں، اس لیے یہ امکان ہے کہ مجموعی رقم میں نمایاں اضافہ ہوگا، جو اہل کسانوں کی حتمی فہرست پر منحصر ہے۔“
وزیرِ زراعت نے یہ بھی کہا کہ پنجاب حکومت گندم کے شعبے کی ڈی ریگولیشن(deregulation) کی جانب بڑھ رہی ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ ”گندم کی قیمتیں اب حکومت مقرر نہیں کرے گی، بلکہ ان کا تعین مارکیٹ کرے گی۔“