06 جنوری ، 2014
کراچی… محمد رفیق مانگٹ…برطانوی اخبار”دی میل“ کے مطابق پاکستان میں ہندووٴں اور سکھوں کو آخری رسومات کے لئے جگہ کی تنگی کا سامنا ہے۔انہیں شمشان گھاٹ کے لئے اپنے نواح میں زمین نہیں مل پا رہی۔کچھ ہندو اور سکھ اپنے عزیز کی موت کے بعد اس کی آخری مذہبی رسومات کے لئے سیکڑوں کلومیٹر کاسفر کرتے ہیں،پاکستان میں شمشان گھاٹ تیزی سے ختم ہو تے جا رہے ہیں۔ امرتسر کے ایک سکھ مورخ سریندر کوچھار نے دعوی کیا ہے کہ اقلیتی ہندو اور سکھ اپنے مردوں کو دفن کرنے پر مجبور ہیں۔ تقسیم برصغیر سے قبل صرف لاہور میں 12 شمشان گھاٹ تھے لیکن اب ایک بھی موجود نہیں ہے۔ آزادی کے بعد12سو ہندو خاندان لاہور میں رہائش پذیر تھے لیکن اب صرف چھ خاندان رہ گئے۔ایسی ہی صورت پاکستان کے دیگر حصوں میں بھی ہے۔ خیبر پختون خوا میں35ہزار ہندو اور سکھ رہائش پزیر ہیں لیکن وہاں پر بھی شاذو نادر ہی کوئی شمشان گھاٹ ہے۔سوات ، تیراہ ، ڈیرہ اسماعیل خان ، بنوں ، کوہاٹ ، مالاکنڈ ، بونیر ، نوشہرہ اور پشاور کے ہندو اور سکھ اپنے عزیز کی آخری رسومات کے لئے حسن ابدال تک کا طویل فاصلہ کرنے پر مجبور ہیں۔انہیں 40سے70ہزار تک سفری اخراجات برداشت کرنا پڑتے ہیںِ۔انہیں سفر کے دوران ہر ضلع کی حدود میں داخلے کے لئے این او سی دینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ لاہور سے86کلومیٹر کے فاصلے پر ننکانہ صاحب میں آخری رسومات کی جگہ ہے۔اگرچہ خیبر پختوں خوا انتظامیہ نے ہندو اور سکھوں کو آخری رسومات مندر کے قریب انجام دینے کی اجازت دی تھی ، زیادہ تر مندروں ، زرعی زمینوں اور تجارتی علاقوں میں لینڈ مافیا کی طرف سے قبضہ کیا گیا ہے ۔کچھ ہندو اور سکھ آدھی رات کو راوی کے کنارے پر اپنے عزیزوں کی لاشوں کو نظر آتش کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔افغانستان میں بھی ان دونوں اقلیتوں کے اسی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔