13 جنوری ، 2014
کراچی…کراچی پولیس کے افسر چوہدری اسلم کی بم دھماکے میں شہادت کے بعد کئی سوالات نے جنم لیا ہے۔ چوہدری اسلم کو کس نے فون کرکے دفتر بلایا؟ موٹروے پولیس کو لیاری ایکسپریس وے پر ایک گھنٹے تک چوہدری اسلم کا انتظار کرنے والے کیوں نظر نہیں آئے؟ کراچی پولیس کے شہید ایس پی سی آئی ڈی چوہدری اسلم پر ہوئے خود کش حملے کو چار روز گزرگئے، تحقیقات بھی جاری ہیں لیکن کچھ سوالات اب بھی کانٹے کی طرح تکلیف پہنچا رہے ہیں۔ 8 اور 9 جنوری کی درمیانی شب سی آئی ڈی پولیس نے چوہدری اسلم کی قیادت میں دہشت گردوں کے خلاف آخری کارروائی کی،ایس پی سی آئی ڈی صبح 7 بجے گھر پہنچ کر سوگئے، شہید ایس پی کی اہلیہ نورین اسلم کہتی ہیں کہ ان کے شوہر نے شام میں جب بچوں کو ٹیوشن تک ڈراپ کرنے کا ارادہ کیا تو اس وقت انہیں دفتر سے ایک نہیں دو فون کالز آگئیں، یہ فون کالز کس کی جانب سے ہوئیں، فون کرنے والے نے ایسا کیا پیغام دیا کہ رات بھر کے تھکے چوہدری اسلم اپنی مصروفیت منسوخ کرکے سیدھے دفتر کے لیے نکل گئے، چوہدری اسلم اور ان کے ساتھ شہید ہونے والے دو پولیس اہل کاروں کے موبائل فون کہاں گئے، کیا دھماکے کے مقام سے وہ موبائل فون برآمد ہوئے، کیا دھماکے کے مقام سے تین موبائل فون برآمد کیے گئے،اگر موبائل فون ملے تو علم ہوا یا نہیں کہ آخری کال کس نے کی تھی،اگر موبائل وہاں سے نہیں ملے تو پھر کہاں غائب ہوگئے،چوہدری اسلم اگر بچوں کو چھوڑنے جاتے تو ان کا روٹ تبدیل ہوجاتا،کیا کوئی چوہدری اسلم کے فون ٹیپ کررہا تھاجس نے پل پل کی خبر دہشت گردوں تک پہنچائی،ایکسپریس وے پر موٹر وے پولیس گشت لگاتی رہتی ہے،دہشت گرد اس روز پچاس منٹ تک گھات لگائے بیٹھے رہے لیکن پولیس کی چھٹی حس کیو ں نہ جاگی،چوہدری اسلم کے استعمال میں بم پروف گاڑی اگر واقعی خراب ہوکر ورکشاپ پہنچادی گئی تھی تو انہیں ویسی ہی دوسری گاڑی مہیا کیوں نہیں کی گئی،کیا ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے ان سوالوں کے گرد اپنی تفتیش کا دائرہ گھمائیں گے یا اس ہائی پروفائل مرڈر کی تحقیقات کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوگا جو ایف آئی آر کے ساتھ ہوا جس میں شہید چوہدری اسلم کے نام کی جگہ محرر نے ان کے والد کا نام ڈال دیا۔