پاکستان
29 جنوری ، 2014

ججوں کیساتھ ناانصافی ہو سکتی ہے،وہ کسی سے ناانصافی نہیں کرسکتے، جسٹس جواد

ججوں کیساتھ ناانصافی ہو سکتی ہے،وہ کسی سے ناانصافی نہیں کرسکتے، جسٹس جواد

اسلام آباد…سپریم کورٹ کے جسٹس جواد خواجہ نے سنگین غداری کیس کے ملزم پرویز مشرف کے وکیل سے استفسار کیا ہے کہ آئین کی کون سی شق میں لکھاہے کہ آرمی چیف کو ایمرجنسی لگانے کا اختیار ہے، وفاق نے کیس درج کرانا، ملزم نے دفاع کرنا اور عدالت نے فیصلہ دینا ہے۔ مشرف کے وکیل شریف الدین پیرزادہ نے31 جولائی 2009ء کا فیصلہ دینے والے 3ججز پر تعصب کا الزام عائد کر دیا۔ مزید جانتے ہیں اس رپورٹ میں جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی 31جولائی 2009ء کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواست پر اعتراضات کی سماعت سپریم کورٹ کے 14رکنی بنچ نے کی۔ عدالت میں سابق وزیراعظم شوکت عزیز کا جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو لکھا گیا وہ خط پڑھ کر سنایا گیا جس میں انہوں نے ایمرجنسی لگانے کی درخواست کی تھی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے استفسار کیا کہ کیا وزیراعظم نے اس خط کے ذریعے آئین پامال کرنے کی درخواست کی تھی۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ شوکت عزیز نے اپنے خط میں جو ایڈوائس دی تھی وہ صدر پر لازم نہیں تھی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے پرویز مشرف کے وکیل سے پوچھا کہ آئین کی کون سی شق میں لکھاہے کہ آرمی چیف کو ایمرجنسی لگانے کا اختیار ہے۔ ابراہیم ستی نے کہاکہ آئین نے نہیں یہ اختیار عدالت نے دیا، حکومت اور عدلیہ اس بات کے پیچھے لگی ہے کہ پرویزمشرف کا بطور آرمی چیف اکیلے اقدام تھا۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا ایمرجنسی کا نفاذ وزیراعظم کی ایڈوائس پر کیا گیا؟ ابراہیم ستی نے کہا کہ آرمی چیف کو ایڈوائس نہیں ہوسکتی۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آپ تسلیم کررہے ہیں کہ مشرف کا 12اکتوبر کا اقدام غیرآئینی تھاجس کی عدالت اور پارلیمنٹ نے توثیق کی، پرویز مشرف نے سوچا کہ دوبارہ بھی غیرآئینی اقدام کروں گا تو درگزر کر دیا جاوٴں گا۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ آپ نے آئین کی پامالی کو عادت بنالیا ہے، ٹکا اقبال کیس میں غیر آئینی اقدام کی توثیق نہ ہوتی تو کیا 3نومبر کا اقدام سنگین غداری نہ ہوتا۔ پرویز مشرف کے وکیل ابراہیم ستی نے موٴقف اپنایا کہ غداری کا مقدمہ چلانا یا نہ چلانا سپریم کورٹ کا نہیں حکومت کا اختیار ہے، سنگین غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے سپریم کورٹ کا نام استعمال کیا جا رہا ہے، وزیراعظم کہتے ہیں کہ سنگین غداری کامقدمہ چلانے کے لیے سپریم کورٹ کا حکم ہے، مقدمہ نہ چلایا تو توہین عدالت ہو گی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ہر ریاستی ادارے کے اپنے فرائض ہیں، اگر کوئی ادارہ کام نہ کرے تو عدالت کا فرض ہے کہ مداخلت کرے۔ پرویز مشرف کے وکیل شریف الدین پیرزادہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ 31جولائی 2009ء کا فیصلہ سنانے والے 14رکنی بنچ کے 3 ججز کا رویہ متعصبانہ تھا جن میں سابق چیف جسٹس افتخار حسین چوہدری، جسٹس غلام ربانی اور جسٹس طارق پرویز شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر جج متعصب ہوں گے تو انصاف کا خون ہو گا۔ اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ جب تک ٹھوس ثبوت نہ ہوں آپ کسی جج پر جانبداری کا الزام نہیں لگا سکتے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیے کہ جج کے ساتھ تو نا انصافی ہو سکتی ہے مگر جج کسی سے نا انصافی نہیں کر سکتا ہماری یہی تربیت ہے۔ کیس کی مزید سماعت کل (جمعرات کو) کی جائے گی۔

مزید خبریں :