22 فروری ، 2014
کراچی…شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی نے اپنے فکرو فن سے اردو شاعری کو نیا رنگ دیا۔ان کی نثر بھی منفرد اسلوب لئے ہوئے ہے۔ شبیر حسن خان جوش ملیح آبادی کا شمار بیسویں صدی کے ان شعرا میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے کلام کے تنوع، فکر اور طرزِ نگارش سے عوام و خواص میں یکساں مقبولیت حاصل کی۔ فطرت حسن، فلسفہ، فکرِحیات، موت اور کردار کے ساتھ ساتھ حیاتِ انسانی کے ہر گوشے کو جوش نے اپنی شاعری میں پیش کیا۔ وہ روایت شکن تھے، جبر کے خلاف آواز اٹھانا ان کا مقصدِ حیات اور یہی ان کی تحریر کی بنیاد رہا۔ انقلاب کی یہ آوازان کے ہاں ہر جگہ نظرآتی ہے۔ لہجے کی بے باکی اور جرأتِ الفاظ اور مصرعوں کی خوبصورتی ان کی شاعری کو اعلیٰ مقام تک پہنچادیتی ہے۔ ان کے الفاظ اور مصرعے تصویر ساز ہیں۔ جوش ملیح آبادی کی شاعری کے ساتھ ساتھ ان کی نثر میں بھی جرأتِ الفاظ اور وسعتِ خیال نمایاں ہے۔ وہ حق کو حق کہنے سے نہیں چوکتے۔ انہوں نے اپنے رسالے کلیم، آج کل، کاخِ بلند کے اداریوں، مضامین، شذرات اور اپنی دوسری نثر کے ذریعے فکر و نظر کی نئی راہیں متعین کی ہیں۔ ادب کاکوئی رخ ہو، وہ ہر جگہ رجحان ساز ہیں، جن کے ہاں نثر پرانے اسلوب کو ترک کرکے اک نئے انداز میں سامنے آتی ہے۔جوش کے بیس کے قریب مجموعے اور چھ نثری کتابوں کے علاوہ بے شمار غیر مطبوعہ تحریریں،پڑھنے والوں کے دلوں میں زندہ ہیں ،جوش کو محدود اور نظر انداز کرنے کی کوششوں کے باوجود،وہ۔اردو ادب کی عظیم شخصیات کی فہرست میں شامل رہیں گے۔