پاکستان
27 فروری ، 2014

پارلیمنٹ لاجزمیں غیراخلاقی سرگرمیاں سے متعلق جمشید دستی کا الزام

پارلیمنٹ لاجزمیں غیراخلاقی سرگرمیاں سے متعلق جمشید دستی کا الزام

اسلام آباد…جمشید دستی کا پارلیمنٹ لاجز میں غیر اخلاقی سرگرمیاں ہونے کاالزام عائد کیا ہے۔ آزاد رکن قومی اسمبلی جمشید دستی نے الزام عائد کیا ہے کہ پارلیمنٹ لاجز میں غیر اخلاقی سرگرمیاں ہوتی ہیں ؟ کیا لاجز میں مقیم ارکان پارلیمنٹ نے کچھ غیر اخلاقی ہوتا دیکھا اور اگر کسی نے دیکھا تو وہ کیا تھا؟ تفصیلات کے مطابق رکن قومی اسمبلی جمشید دستی کا کہنا ہے کہ کیا ارکان پارلیمنٹ قطب الدین کی اولاد ہیں کہ ان کے کرتوتوں پر پردہ ڈال دیا جائے؟ اسپیکر پہلے مجھے پھانسی لگا دیں، پھر میرے دعوے کی تحقیقات کر الیں۔ انہوں نے یہ باتیں جیو نیوز سے بات چیت میں کی۔ جمشید دستی کے بیان پر کچھ اراکین اسمبلی نے ان کی حمایت کی تو کچھ نے تنقید کی۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے دستی سے ثبوت مانگ لیے۔ جمشید دستی کا کہنا تھا کہ لاجز میں عرصے سے شراب اور چرس کا دھندا ہو رہا ہے، باہر سے لڑکیاں آتی ہیں، صبح چرس کا دھواں پھیلا ہوتا ہے۔ جمشید دستی نے قومی اسمبلی کے ایوان میں تہلکہ مچا دیا۔ منشیات کا استعمال، غیر اخلاقی سرگرمیاں اور وہ بھی معزز ارکان پارلیمنٹ کی رہائش گاہوں میں۔ کئی ارکان نے کہا کہ جمشید نے جو کہا سچ ہے۔ ایم کیو ایم کے رہنما نبیل گبول کا کہنا تھا کہ رات کو میں نے دیکھا کہ ڈائن نما عورتیں گھوم رہی تھیں، میں ڈر گیا کہ واقعی ڈائن ہیں۔ جمشید دستی کا پڑوسی تو یہاں اندر بھی آکر چرس پیتا ہے، اسپیکر صاحب ایک آپریشن کرائیں کہ کون سا ایم این اے کیا کرتا ہے۔بی این پی عوامی کے اسرار اللہ زہری کہتے ہیں کہ سارے دیکھ رہے ہیں جو کچھ ہو رہا ہے، نماز والے بھی دیکھے، باقی کام والوں کو بھی دیکھا۔ کچھ ارکان پارلیمنٹ جمشید دستی کے الزامات پر بولے، توبہ، توبہ، استغفار۔ ہم نے تو ایسا کچھ کبھی نہیں دیکھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی شگفتہ جمانی کا کہنا ہے کہ توبہ استغفار میں نے تو کوئی ایسی حرکت نہیں دیکھی، ان کے پاس ثبوت ہے تو دیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر مولا بخش چانڈیو نے کہا ہے کہ جس حرکت سے شور شرابا ہو، تو وہ تو میں نے نہیں دیکھا۔ جمشید دستی کے الزمات نے ارکان پارلیمنٹ کو بے چین اور اقتدار کے ایوانوں میں ہل چل پیدا کر دی ہے۔ جمشید دستی کے انکشافات سے کچھ ممبران متفق کچھ نہیں، حقیقت کیا ہے یہ تو تحقیقات کے بعد ہی پتہ چلے گا۔

مزید خبریں :