16 اپریل ، 2014
اسلام آباد…پرویز مشرف غداری کیس میں استغاثہ کے وکیل اکرم شیخ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایمرجنسی آرڈر کا نہ وزیراعظم ہاوٴس میں کوئی ریکارڈ ہے اور نہ ہی حکومت کو یہ علم ہے کہ ان کا ساتھ دینے والے مشیر کون تھے ؟ یہ تو خود پرویز مشرف ہی بتاسکتے ہیں۔ خصوصی عدالت میں غداری کیس میں مشرف نے دیگر ساتھیوں کو ٹرائل میں شامل کرنے اور ایف آئی اے انکوائری رپورٹ کی نقل فراہم کرنے کی درخواست کی تھی، پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے آج تحریری جواب داخل کیا جس میں کہا گیا کہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق صرف پرویز مشرف کے خلاف دستاویزی ثبوت ملے ہیں، جبکہ تحریری رپورٹ کی نقل فراہم کرنا ضروری نہیں۔ اس کے بعد عدالت میں دلائل دیتے ہوئے پراسیکویٹر اکرم شیخ نے کہا کہ وزیراعظم کے دفتر میں ایمرجنسی کے نفاذ کے لیے کسی ایڈوائس یا سمری کا ریکارڈ موجود نہیں، ایمرجنسی آرڈر پر ملزم پرویز مشرف کے دستخط ہیں، جن سرکاری حکام کا ایمرجنسی آرڈر میں تذکرہ ہے ، ان کے ملوث ہونے کے شواہد مہیا کرنا ملزم کی ذمہ داری ہے۔ جسٹس فیصل عرب نے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ ملزم تحقیقاتی رپورٹ اپنے دفاع میں دیکھنا چاہتا ہے ، اسے محروم کیوں رکھا جائے ، کیا عدالت اورملزم کو تحقیقاتی رپورٹ فراہم کرنا ضروری نہیں۔ اکرم شیخ کا جواب تھا کہ عدالت طلب کر سکتی ہے ، ملزم نہیں، ملزم وہ بیان مانگ سکتا ہے جو اس کے خلاف بطور شہادت پیش ہو، جن افراد سے تفتیش کی گئی وہ فہرست فراہم نہیں کی جا سکتی ، فاضل دوست کو فہرست دی تو وہ فوراً میڈیا کے پاس چلی جائے گی،انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ مشرف کی درخواستوں کو مسترد کردیں۔ دوران سماعت مشرف کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے سوال کیا کہ کیا عدالت نے 1956 سے ٹرائل شروع کرنے کے لیے ان کی استدعا مسترد کی ہے، اگر ایسا ہے تو انہیں نقل دی جائے تاکہ تحریری وضاحت کر سکیں،24 اپریل کو آئندہ سماعت پر بیرسٹرفروغ نسیم اکرم شیخ کے موقف پر جوابی دلائل دیں گے اور کیس کی سماعت روزآنہ کی بنیاد پر ہوگی۔ پراسیکیوٹر کی تقرری کے بارے میں فیصلہ 18 اپریل کو سنادیا جائے گا۔