10 مئی ، 2014
کراچی…محمد رفیق مانگٹ… برطانوی اخبار ”دی میل “ لکھتا ہے کہ فوج کی طرف سے نظام پر قبضہ نہ کرنے کی سیاسی یقین دہانیاں موجود ہیں ۔فوج اور سویلین حکومت میں مشترکہ طور پر امن کے حصول کے لئے بندوق کی بجائے بات چیت کا راستہ اپنانے پراتفاق ہے۔ پاکستان کے آرمی چیف کی تقریر اور وزیر اعظم کے انٹرویو سے واضح ہے کہ فوج سویلین حکومت کی پشت پرہے عمران خان کی طرف سے حکومت مخالف احتجاج کی منصوبہ بندی کا مقصدموجودہ انتظامیہ کو کمزور کرنا ہے۔انتخابی کمیشن سے ریٹرنگ افسران تک، میڈیا سے عدلیہ تک ، مسلم لیگ نواز سے لے کر موجودہ حکومت تک عمران خان کو ہر ایک کے ساتھ مسئلہ ہے۔ عمران خان کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر دعوی کے لئے ثبوت چاہیے۔حقائق کے بغیر رائے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔پاکستان میں انتخابی نتائج تشویش کا باعث رہے ہیں، جس کے حل کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو آن بورڈ رکھنے کی ضرورت ہے، فوج اور سویلین حکومت کے درمیان ناپسندیدگی کی تاریخ کوختم نہیں کیا جا سکتا ہے۔پاکستانی سرزمین پر مخالف جمہوری قوتوں کی موجودگی کو دیکھتے ہوئے اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے عمران خان کا انتخابی نتائج میں دھاندلی ثابت کرنے کا ایجنڈہ خطرناک ہو سکتا ہے جس میں حکومت کی برطرفی بھی شامل ہے۔اخبار کے مطابق تمام سرحدوں پر فوج کی تعینانی سے واضح تھا کہ علاقائی طور پر پاکستان الگ تھلگ ہوچکا ہے اور تحریک طالبان کا خود تراشیدہ آسیب ملک کو پریشان کر رہا ہے۔چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کی طرف سے تقریر نے ملک کے سیاسی مستقبل کے بارے میں سب کو آرام دہ اور پرسکون بنا دیا ۔اس کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے لندن میں ایک انٹرویو میں کہا کہ جمہوریت پاکستان کے مسائل کا حل ہے۔ خصوصاً تحریک طالبان سے نمٹنے کیلئے سویلین حکومت کو فوج کی حمایت حاصل ہے ،ذمہ دار میڈیا کے احترام کی بات بھی کی گئی ۔ملک جمہوریت اور ریاست کی عملداری کو سیاسی معیار کے مطابق اپنانے کی جدو جہد میں ہے۔لیکن بدقسمتی سے عمران خان کے معاملے میں یہ سب کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ طویل عرصے سے تنقید اور شکایتی مسئلہ عمران خان کی طرف سے ہے،جو عنصر اس نظام کو بااختیا ر نہیں بنا رہاوہ ترقی کی آڑ میں مسلسل جارحیت ہے۔رپورٹ کے مطابق کچھ افرادکے لئے پاکستان میں تنازعات اور فساد کا موسم ہے۔ کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ نے اپنے ارکان کی ماورائے عدالت قتل پر پورے شہر میں یوم سوگ منا کر تمام اقتصادی سرگرمیوں کو روک دیا۔ایک بلوچ طلباء تنظیم نے اپنے چیئرمین کی بازیابی کے لئے بھوک ہڑتال کر رکھی ہے ،یہ قابل تشویش امور ہیں جنہیں سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ تاہم کچھ لوگوں کے لئے انتخابات کے بعد یہ موسم یقین دہانیوں کا ہے۔ لوڈشیڈنگ اور بجلی کے مسائل کی پالیسی اقدامات اتنی یقین دہانیاں لے کر نہیں آئے،اور نہ ہی طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی طرف سے تسلی بخش یقین دہانی آئی۔ان مسائل کے حل کیلئے بہتر گورننس کی ضرورت تھی ۔ عمران خان کو اپنی رائے کے اظہار کا حق ہے ، لیکن ان کی رائے حقائق پر مبنی ہے؟ حقائق کے بغیر رائے سیاسی پختگی کو بے قابو غصے میں تبدیل کردیتی ہے ۔