پاکستان
17 جولائی ، 2014

افغانستان سے امریکی انخلا ء کے منصوبے پر پھر غور کیا جائے،پاکستان

کراچی…محمد رفیق مانگٹ.......امریکی جریدے ’’فارن پالیسی‘‘ کے مطابق پاکستانی حکومت کی طرف سے اوباما انتظامیہ کو ایک نیا سخت پیغام دیا جارہا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجی انخلا ء کے اعلان کردہ منصوبے پر ا ز سرنو غور کیا جائے۔افغانستان میں موجودہ افراتفری سے واضح پیغام جاتا ہے کہ 2016 کے آخر تک افغانستان سے تمام امریکی فوجیوں کے انخلاء کے منصوبے کا وائٹ ہاؤس کو دوبارہ جائزہ لینے کی فوری ضرورت ہے۔ایک سینئر پاکستانی عہدیدار نے کہا کہ اگر اوباما اپنے اعلان کردہ منصوبے کے تحت افغانستان سے فوج میں کمی کر دی تو اس سے افغانستان غیر مستحکم ہو جائے گا جس پر پاکستان کو گہری تشویش ہے، سرحد پار محرومی کی وجہ سے 15لاکھ افغان مہاجرین پاکستان آئیں گے جن میں نامعلوم تعداد عسکریت پسندوں کی بھی ہوگی۔حکام کا کہنا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کامنصوبہ تین شروط پر تھا،جو پوری نہیں ہوسکیں۔افغانستان میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے اقتدار کی پرامن منتقلی، باہمی سیکورٹی انتظامات کے معاہدے پر دستخط جو امریکی فوجیوں کو ملک میں رہنے کی اجازت دیتا ہو، اور امریکی اثر کم ہونے کی صورت میں ملک کی حفاظت کی ذمہ داری لینے کے قابل ایک افغان فوج تیار کرنا تھی۔لیکن افغانستان کے صدارتی انتخابات میں بڑے پیمانے پر انتخابی دھوکہ دہی کے ایک دوسرے پر الزامات لگائے گئے، طالبان حملوں میں اضافہ اور سلامتی کے معاہدے پرا بھی تک دستخط نہیں کئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ انخلاء کی پوری بنیاد کو چیلنج کردیا گیا ہے اگر شرائط پوری نہیں ہوپاتی تو منصوبہ بندی کرتے ہوئے کچھ مفروضات و ضوابط کو بنیاد بنایا جاتا ہے۔پاکستانی حکام کے مطابق امریکا کو اپنے منصوبے کا دوبارہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ کیپٹل ہل میں قانون سازوں نے اس پر فکرمندی اور پریشانی کا اظہار کیا کہ اگرامریکی فوجی انخلاء کے منصوبے پر پیش رفت ہوئی تو پاکستان اورافغانستان میں کیا ہوسکتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ا مریکی حکام نے افغانستان کی موجودہ سیاسی اور سلامتی کی صورت حال پر پاکستانی حکومت کے سنجیدہ تجزیے سے اتفاق کیا ۔تاہم امریکی حکام نے افغانستان سے فوجی انخلاء کے منصوبے کی تبدیلی پر غور کا کوئی اشارہ نہیں دیا۔ امریکا نے پاکستانی تشویش کو بھی غلط قرار نہیں دیا۔بدھ کے روزامریکی صدر اوباما نے واضح کیا کہ افغانستان میں ہمارے جنگی مشن کااس سال خاتمہ ہے۔وائٹ ہاؤس کے موجودہ پلان کیمطابق رواں سال کے آخر تک افغانستان میں9800امریکی فوجی رہ جائیں گے۔5ہزار2015کے آخر تک امریکا واپس لوٹ جائیں گے ،باقی 2016کے آخر پر افغانستان سے نکل جائیں گے۔افغانستان میں امریکی فوج کی کمی کے ساتھ پاکستان میں ڈرون حملوں کی کمی جنگ کے سمٹنے کو واضح کرتی ہے۔پاکستان میں2010میں 117ڈرون حملے جب کہ گزشتہ برس28حملے کیے گیے اوررواں سال صرف پانچ ڈرون حملے ہوئے۔سینئر پاکستانی عہدیدار نے کہا کہ امریکی ڈرون حملوں میں کمی امریکی انتظامیہ کی خواہش کا غماز ہے کہ اسلام آباد پاکستان طالبان کے ساتھ دوبارہ امن مذاکرات جاری کرے جو فی الحال معطل ہیں۔جریدے کے مطابق وائٹ ہاؤس کے پاکستان کے ساتھ طویل عرصے سے تعلقات کشیدہ رہے ہیں دونوں ممالک القاعدہ کے خاتمے کے لئے اہم اتحادی ہیں،امریکی حکام یہ یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان عسکریت پسند رہنماؤں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتا ہے۔ دونوں ممالک کے تعلقات میں وزیر اعظم نواز شریف کے انتخاب کے بعد بہتری آئی جنہوں نے ملک کے شمال مغربی حصے کو انتہا پسندوں سے صاف کرنے لئے ایک بڑا آپریشن شروع کر رکھا ہے۔ بدھ کے روز اس علاقے میںمبینہ طور پر سی آئی اے کے ڈرون حملوں سمیت فضائی حملوں کے یک سلسلے میں کم از کم 50 افراد ہلاک ہو گئے۔ سینئر پاکستانی عہدیدار نے کہا افغانستان سے امریکی فوج کے مکمل انخلاء کے منصوبے کا دوبارہ جائزہ لیا جائے اور2016کے بعد بھی افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی کو یقینی بنایا جائے۔

مزید خبریں :