10 ستمبر ، 2014
اسلام آباد...... کیا کوئی سیاسی جماعت یا گروہ آئینی عہدیداروں کو طاقت اور تشدد کے زور پرہٹا سکتا ہے؟ کیا کوئی سیاسی جماعت مسلح افواج کو اپنے غیر آئینی مقاصد کے لیے دخل اندازی کی دعوت دے سکتی ہے؟ اور کیا کوئی سیاسی لیڈرنجی یا عوامی رابطوں میں افواج پاکستان کی حمایت کو غلط طور پر پیش کر سکتا ہے؟سپریم کورٹ نے رضا ربانی کے اٹھائے گئے 3 سوالات پر تحریک انصاف اور عوامی تحریک سے جواب مانگ لیا۔ سپریم کورٹ میں ممکنہ ماورائے آئین اقدام کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ نے کی۔ درخواست گزار کے وکیل ذوالفقار نقوی نے کہا کہ ایک ماہ سے عوام کے بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیے کہ اگر لوگوں کے بنیادی حقوق کا معاملہ ہے تو عدالت کو کسی پٹیشن کی بھی ضرورت نہیں، عدالت اس کے بغیر ہی آئین کا اطلاق کر سکتی ہے، اٹھارہ کروڑمیں سے ایک شخص بھی کہہ دے کہ اس کا آئینی حق مجروح ہو رہا ہے تو عدالت اسے سنے گی۔ اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ سرکاری املاک پر بھی حملہ ہوا مگر حکومت صبر و تحمل سے کام لے رہی ہے۔ جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ شاہراہ دستور آنے کے لیے کسی کی تلاشی لی جاتی ہے تو اس کی عزت نفس مجروح ہو رہی ہے، کیا سپریم کورٹ پر کپڑے لٹکانا بنیادی حق ہے، مٹی پاؤ والی بات اب ختم ہونی چاہیئے۔ پیپلز پارٹی کے وکیل اعتزاز احسن نے اپنے جواب میں استدعا کی کہ عدالت تمام سیاسی جماعتوں کو آن بورڈ لے کر مسئلے کا حل نکالے ۔چیف جسٹس ناصر الملک نے جواب دیا کہ یہ عدالت کا دائرہ اختیار نہیں، اس پر کچھ نہیں کر سکتے۔ اے این پی اور بی این پی عوامی کے وکیل رضا ربانی نےاپنے جواب میں عدالت کے سامنے تین سوال اٹھائے ہیں: کیا کوئی سیاسی جماعت یا گروہ آئینی عہدیداروں کو طاقت یا تشدد کے زور پر ہٹا سکتا ہے؟ کیا کوئی سیاسی جماعت مسلح افواج کو اپنے غیر آئینی مقاصد کے لیے دخل اندازی کی دعوت دے سکتی ہے؟ کیا کوئی سیاسی لیڈرنجی یا عوامی رابطوں میں افواج پاکستان کی حمایت کو غلط طور پر پیش کر سکتا ہے؟ عدالت نے رضا ربانی ایڈوکیٹ کی جانب سے اٹھائے گئے تینوں سوالات پر پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک سے جواب طلب کرتے ہوئے سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کردی۔