11 ستمبر ، 2014
کراچی........سانحہ بلديہ ٹاؤن کو آج دو برس ہوگئے ليکن مجرمانہ غفلت برتنے کے ذمے داروں کا تعين اب تک نہیں کيا جاسکا۔ اس دل دہلادینے والے حادثےميں جان سے جانے والے ڈھائی سو سے زائد افراد کے ورثا آج بھی انصاف کے منتظر ہیں۔بلدیہ ٹاؤن فیکٹری سانحہ ملکی تاريخ کا بدترين حادثہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، اس اندوہناک سانحے میں 259 افراد جاں بحق ہوگئے۔ گارمنٹ فیکٹری میں کئی گھنٹے آگ بھڑکتی رہی اور لوگ مدد کے لیے پکار پکار کر زندہ جل کر خاکستر ہوگئے ليکن دو برس بیت جانے کے باوجود آج تک ذمہ داروں کا تعين نہیں ہوسکا۔کئی گھروں کے کفیل اس سانحے کا شکار ہوگئے جن کے ورثا آج بھی انصاف کے متلاشی ہیں، ستم ظریفی تو یہ کہ بلدیہ فیکٹری کے ملزمان کے خلاف زير سماعت مقدمے کی سماعت ایک سال سے نہیں ہوپائی ۔ گواہیاں تو ملیں لیکن ملزمان کو 341 گواہوں کے بيانات کی کاپیوں کی عدم فراہمی کے باعث فرد جرم عائد نہ ہوسکی جس سے وہی ہوا جو عموماً ہوتا آیا ہے یعنی انصاف کی متلاشیوں کو انتظار کی سولی پر لٹکا دیا گیا۔عدالت نے کیس میں سستی برتنے پر کئی بار شو کاز نوٹس بھی جاری کیے ليکن کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ 11 فروری 2013 کو سندھ ہائی کورٹ نے کیس کےمرکزی ملزمان اور ان کے دو ملازمین کو ضمانت پر رہا کردیا۔ مقدمے میں پیش رفت نہ ہونے کی وجہ سے ملزمان اب بھی ضمانت پر رہا ہیں۔سانحے کا شکار ہونے والے خاندانوں کو معاوضہ تو ادا کردیا گیا لیکن انصاف کی بر وقت فراہمی نہ ہونے کے باعث ورثاء میں اب بھی بے چینی پائی جاتی ہے۔ آج دو برس بیت جانے کے باوجود اس دلخراش حادثے پر اپنوں کو کھو دینے والوں کو اس رات کی تپش، سسکیاں، چیخ وپکار آج بھی تڑپاتی ہے۔