08 نومبر ، 2014
کراچی........آج شاعر بے مثال جون ایلیا کی بارہویں برسی ہے، اپنے منفرد اور چونکادینے والے لہجے کی وجہ سے وہ اج بھی لوگوں میں مقبول ہیں ۔ جون ایلیا آج اس دنیا میں تو نہیں لیکن ان کی یادیں ،ان کی بے خودی اور انتہائی منفرد لہجہ لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے ۔ جون ایلیا کو اقدار شکن اور باغی کہا جاتا ہے، اُن کا حلیہ، طرزِ زندگی اور زندگی کے لاابالی رویہ میں بھی اس کا اظہار ہوتا ہے۔ ان کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے اس طرزِ زندگی کو اپنے فن کی شکل میں ایسے پیش کیاکہ شخص اور شاعر مل گئے ۔ اس سخن میں وہ ایسے ڈھلے کہ جیسا باغیانہ رویہ انھوں نے دنیا سے اپنایا تھا وہ محبوب سے بھی اختیار کر لیا۔
اے شخص اب تو مجھ کو سبھی کچھ قبول ہے
یہ بھی قبول ہے کہ تجھے چھین لے کوئی !!
یہ روایتی غزل کے شاعر کا شکست خوردہ لہجہ نہیں ہے۔ محبوب کے ساتھ ان کا بے باکانہ رویہ اردو میں بے حد نرالا ہے۔ یہ بے باکی بعض اوقات جارحیت تک میں بدل جاتی ہے۔
اک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر
کاش اس زباں دراز کا منھ نوچ لے کوئی
جون ایلیا کےموضوع ، مضمون بلکہ انداز اور اسلوب کے لحاظ سے بھی چونکا دینے والے ہیں۔انہوں نے جو بے تکلفانہ اور لاگ لپٹ سے پاک انداز محبوب سے اپنا رکھا تھا، وہی انداز دوسرے موضوعات میں بھی برتا ہے۔
سینہ دہک رہا ہو تو کیا چُپ رہے کوئی
کیوں چیخ چیخ کر نہ گلا چھیل لے کوئی
جون ایلیا کو دنیا سے منہ موڑے بارہ برس ہوچکے ہیں لیکن اردو دنیا ان کے چار مجموعوں اور اُن کی یاد کو اب بھی سینے سے لگائے ہوئے ہے۔