پاکستان
24 جنوری ، 2015

اوباما کا بھارت جانا، پاکستان نہ آنا حساس فیصلہ تھا:امریکی اخبار

اوباما کا بھارت جانا، پاکستان نہ آنا حساس فیصلہ تھا:امریکی اخبار

کراچی........رفیق مانگٹ........ امریکی اخبار” وال اسٹریٹ جرنل“ باراک اوباما کے دورہ بھارت پر اپنی رپورٹ میں لکھتا ہے کہ اوباما کا بھارت جانے اور پاکستان نہ آنے کا فیصلہ اسلام آباد کےلئے اس قدر حساس تھا کہ اوباما کو نومبر میں پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کو فون کرکے اس وجہ کی وضاحت کرنا پڑی، اوباما نریندر مودی کو بند دروازوں کے پیچھے پیغام دے سکتے ہیں کہ اسلام آباد کے ساتھ اپنے رویے میں لچک پید کریں اور معاندانہ رویہ ختم کرکے مذاکرات شروع کریں، امریکا دونوں ممالک کے تعلقات کو معمول پر دیکھنا چاہتا ہے، امریکا دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کی ہمیشہ سے حمایت کرتا رہا ہے۔ امریکی اخبار نے اپنی تفصیلی رپورٹ میں لکھا کہ صدر باراک اوبا ما کا دورہ بھارت ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب پاک بھار ت تعلقات میں کشیدگی عروج پر ہے،حالیہ مہینوں میںپاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول پر شدید فائرنگ سے تعلقات خراب ہیں، اوباما کا دورے کا مقصد نئی دہلی اور واشنگٹن کے درمیان بڑھتی قربتوں کی نمائش ہے۔ انتظامیہ حکام اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اوباما کی طرف سے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے سامنے دونوں جوہری ہمسایہ ممالک کو معاندانہ رویے میں کمی کر کے بات چیت دوبارہ شروع کرنے جیسے ایشوز اٹھائے جانے کا امکان ہے، وائٹ ہاؤس کے ڈپٹی نیشنل سیکورٹی ایڈوائزربین روڈ کا کہنا ہے کہ امریکا دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کی تسلسل سے حمایت کرتا رہا اور کرتا رہے گا، بھارت اور پاکستان سرحدی خلاف ورزیوں کی ایک دوسرے پر الزام لگاتے رہے، اکتوبر سے بمباری اور فائرنگ سے دونوں اطراف کے درجنوں شہری اور فوجی جاں دے چکے،اس کشیدگی میں اضافہ اس وقت مزید دیکھنے میں جب سرتاج عزیز نے یہ بیان دیا کردیا بھارت جنگ کےلئے خطرناک خواہش رکھتا ہے، وزیر اعظم نواز شریف کے برسراقتدار کے بعد بھارت کے خلاف یہ سب سے زیادہ سخت بیا ن تھا۔ اخبار نے شیری رحمان کے حوالے سے لکھا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات پارہ پارہ ہو گئے، ممبئی حملوںکے بعد سے اس سے برے حالات نہیں ہوئے، اوباما کے دورۂ بھارت میں عسکریت پسندوں کی طرف سے حملے کے خدشے کے پیش نظر بھارت الرٹ ہے، واشنگٹن کے تھنک ٹینک سٹیمسن سینٹر کے تجزیہ کاریشوع وائٹ کہتے ہیں کہ بھارت اور پاکستا ن آپس میں بات نہیں کررہے جس سے دہشت گردی کے حملوں کا خطرہ بڑھ گیا ہے، سرحد پر کوئی بھی تصادم کسی بڑے بحران کو جنم دے سکتا ہے،صدر اوباما پاکستان کے ساتھ مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کی وزیراعظم مودی کو درخواست کرسکتے ہیں، تاہم میزبان کی ناراضی سے بچنے کے لئے امریکی صدر یہ پیغام غالباً بند دروازوں کے پیچھے دیں گے، سرد جنگ اور ستمبر 2001ء حملوں کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میںپاکستان امریکا کا اہم اتحادی رہا ہے۔ اس لئے بھارت اور امریکا کی قربتوں کو پاکستان بے چینی سے دیکھ رہا ہے۔ واشنگٹن اور اسلام آباد میں حکام کے مطابق اوباما کا دورہ بھارت اور پاکستان نہ آنے کا فیصلہ اسلام آباد کےلئے اس قدر حساس فیصلہ تھا کہ اوباما نے نومبر میں نواز شریف کو فون کرکے اس وجہ کو بیان کیا۔ وائٹ ہاؤس کے مشیر کا کہنا ہے کہ ہم ایک دوسرے کی قیمت پر ان تعلقات کو نہیںدیکھتے، ہمارے بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات ہو سکتے ہیں اور ہمارے پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات ہو سکتے ہیں۔بھارتی مبصرین واشنگٹن اور نئی دہلی کے تعلقات کے بارے کہتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے یرغمال نہیں کہ پاکستان میں کیا رونما ہوتا ہے۔

مزید خبریں :