بلاگ
28 فروری ، 2017

سسرال سے جنازہ اٹھے

سسرال سے جنازہ اٹھے

رئیس انصاری، بیورو چیف جیو نیوز لاہور
ہوش سنبھالنے کے بعد جہاں گھر کے بڑوں اور پڑوس کے بزرگوں نے رسم ورواج کے بارے میں سمجھایا، وہیں کچھ ایسی باتیں بھی سننے میں آئیں جن کی سنگینی اس وقت تو سمجھ نہیں آئی، لیکن عمر گزرنے کے ساتھ اس کی حقیقت جان کر ایسا محسوس ہوا کہ جیسے ہم دور جدید میں نہیں بلکہ پتھر کے دور میں رہتے رہے ہیں۔

جہالت کے اُس دور میں جب بیٹی کو پیدا ہوتے ہی دفن کردیا جاتا تھا، بیوہ کو ستی کردیا جاتا تھا اور کچھ اس سے ہی ملتی جلتی رسم کا میں نے بھی سنا اور وہ یہ ہے کہ بیٹی کے بیاہ میں وداع کرتے وقت سر پر ہاتھ رکھنے والے بزرگ صرف یہی کہتے ’’جا بیٹی! اب تیرا جنازہ سسرال سے ہی اٹھے‘‘، آج تک میری سمجھ میں یہ نہیں آیا کہ بیٹی کو دعا دی گئی یا بد دعا؟

یہ لکھنے کی جسارت اس لیے ہوئی کہ ہمارے ملک میں ایسے لاتعداد واقعات رپورٹ ہوتے رہتے ہیں جن میں کبھی خاوند غصے کے عالم میں بیوی کو قتل کر دیتا ہے تو کبھی ساس اپنے بیٹوں کی مدد سے بہو کومار دیتی ہے، کسی واقعے میں بہو یا بیوی کو زہر دے کر یا گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔

ابھی چند روز قبل راولپنڈی میں بھی ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا جس میں خاوند نے بیوی کو پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی، کیا اشرف المخلوقات کہلانے والے ایسے ہوتے ہیں؟ ہمیں سوچنا چاہئے کہ جس طرح اپنی بیٹی ہوتی ہے بالکل اسی طرح گھر میں بیاہ کر آنے والی بھی کسی کی بیٹی ہوتی ہے، کسی کی بیٹی پر آسانی سے پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی جائے اور اپنی بیٹی کو گرم ہوا بھی لگے تو تکلیف ہو، یہ کہاں کی انسانیت ہے؟ یہ کہاں کے طور طریقے ہیں؟ یہ کہاں کا انصاف ہے؟

بیٹیاں تو گھر کی رونق اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتی ہیں، وہ بہن کی شکل میں رحمت، بیوی کی شکل میں گھر کا سکون اور ماں کی صورت میں جنت ہوتی ہے اور ماں تو خود گھر کے لیے باعث رحمت، سکون، رونق، گھر کا سب سے زیادہ سایہ دار شجر یعنی اگر دریا کو کوزے میں بند کریں تو وہ سب کچھ ہی ہوتی ہے،پھر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ یہی عورت جب ساس، نند یا یوں کہیں کہ سسرالی رشتے داربنتی ہے تو سخت گیر، نفرت اور عداوت رکھنے والی کیوں بن جاتی ہے؟ یا جب وہ بہو بنتی ہے تو ساس کو ماں، نند کو بہن اور دیگر سسرالی رشتہ داروں کو اپنا رشتہ دار کیوں نہیں سمجھتی؟

کیا اس حقیقت سے انکار ممکن ہے؟ یقیناً نہیں، شاید اس حقیقت سے انکار ہی اس مسئلے کی بنیادی وجہ ہے، جب سب آگاہ ہیں تو بیٹی کا سسرال سے جنازہ اٹھنے کی بات کیوں کی جاتی ہے؟ بیٹی کا رشتہ لیتے وقت کہا جاتا ہے کہ یہ ہماری بیٹی ہے، اپنی بیٹیوں سے بھی اچھا رکھیں گے وغیرہ غیرہ اور اس کی ہونے والی ساس تو صدقے واری جارہی ہوتی ہے، رشتہ مانگتے وقت ایسا لگتا ہے کہ ہونے والی بہو کو اپنی بیٹی سے بھی زیادہ سمجھا جارہا ہے، لڑکے کے بھائی اور بہنیں تو شادی سے پہلے ہی بھابھی بھابھی کہتے نہیں تھکتے اور بیٹی کے ماں باپ سمجھتے ہیں کہ ان کی بیٹی کو پھولوں کی طرح رکھا جائے گا لیکن اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ شادی کے کچھ دن بعد ہی سسرال والوں کا رویہ تبدیل ہونا شروع ہوجاتا ہے اور گھر میں بیٹی بنا کر لائی جانے والی بیٹی زہر لگنا شروع ہوجاتی ہےاورحقیقت سے ہٹ کر سوچنے کی وجہ سے مسائل کھڑے ہوجاتے ہیں۔

حقیقت یہ ہےکہ ساس اور سسر ماں باپ نہیں ہوتے، ساس اور سسر ہوتے ہیں، یہ مسئلہ صرف ہمارے ملک کا نہیں بلکہ بین الاقوامی ہے، جس طرح ایک پریس کانفرنس کے دوران امریکا کی سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن سے ایک خاتون صحافی نے سوال کے انداز میں کہا کہ امریکا ایک ایسی ساس ہے جو جتنا بھی کرلو پھر بھی کہتی ہے’’ڈو مور‘‘ اس جملے پر نہ صرف پورے ہال میں قہقہہ لگا بلکہ ہیلری کلنٹن بھی اپنا قہقہہ نہ روک سکیں۔

ہمیں بھی اس حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہئے کہ ماں باپ، ماں باپ ہوتے ہیں اور ساس، سسر والدین نہیں ہوتے، لہٰذا اس رشتے کے تقاضے بھی مختلف ہیں، بیٹی ماں یا باپ کے ساتھ اونچی آواز میں بات کرلے تو ماں باپ اسے اہمیت نہیں دیتے، تھوڑی دیربعد بیٹی کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہو جاتا ہے اور وہ معافی مانگ لیتی ہے، ماں باپ بھی بیٹی کو گلے لگا لیتے ہیں، اگر ماں باپ بیٹی کو اس کی کسی بد تمیزی پر ڈانٹ بھی دیں اور بیٹی ناراض ہوجائے تو کچھ دیر میں ماں آگے بڑھ کر بیٹی کو سمجھا دیتی ہے، باپ بھی اسے گلے لگا لیتا ہے یوں تمام گلے دور ہوجاتے ہیں اور کسی کے دل میں کوئی رنجش نہیں رہتی،اگر یہی بات سسرال میں ہوجائےتو بہو ساس اور سسر کا پیچھا نہیں چھوڑتی، جبکہ ساس اورسسر بہو کے پیچھے پڑ جاتے ہیں، پھر چاہےکتنی ہی معافی تلافی ہو جائے۔

بیٹی کو رخصت کرتے وقت یہ کہنا کہ ’’جا بیٹی! اب وہ تیرا گھر ہے اور تیرا جنازہ سسرال سے ہی اٹھے‘‘ یعنی اب اسے اپنی تمام عادات اور خواہشات پر سسرال والوں کو ترجیح دینا ہوگی اور ساس، سسر، نند، دیورانی وغیرہ کی ہر بات من وعن تسلیم کرنا ہو گی، اور ایسا نہ ہونے پر مسائل جنم لیتے ہیں اور لڑائی جھگڑے کی بنیاد بنتے ہیں۔

چلیں ٹھیک ہے، مان لیا کہ ایسا ہی ہوتا ہوگا لیکن کیا برطانیہ، امریکا اوریورپ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی والدین کو بیٹیوں کی رخصتی پر اس طرح کی نصیحت کرتے سنا ہے، پھر وہاں شادی کے بعد خواتین کو قانون میں بہت تحفظ بھی دیا جاتا ہے، برطانیہ میں اگر طلاق ہوجائے تو 16 سال تک بچے کو ماں سے چھینا نہیں جاسکتا اور خاوند کے اثاثوں سے بیوی کو آدھا حصہ دیا جاتا ہے، غرض لڑکی کو اس قسم کا قانونی تحفظ حاصل ہوتا ہے،اس سب کے باوجود بھی ان ملکوں میں طلاق کی شرح کم نہیں ہو سکی، لہٰذا ثابت ہوتا ہے کہ علیحدگی کے معاملے کا تعلق جائیداد میں حصہ، دیگر مالی معاملات یا تعلیم یافتہ ہونے یا نہ ہونے سے نہیں ہوتا، اگر ایسا ہوتا تو لیڈی ڈیانا اور شہزادہ چارلس کی طلاق نہ ہوتی، اندرا گاندھی کے اپنی بہو سے جھگڑے نہ ہوتے اور ماضی کے علاوہ حالیہ دنوں میں دیکھیں تو پاکستانی نژاد برطانوی باکسر عامر خان اور ان کی بیوی کے سسرال والوں سے اختلافات اس نہج پر نہیں پہنچتے۔

برطانیہ میں پسند کی شادی کرنے والی خاتون کو پاکستان میں اس کے والدین اور بھائی بہن گھر بلا کر قتل نہ کردیتے اور اس کا شوہر انصاف کی تلاش میں مارا مارا نہ گھومتا رہتا اور مراعات یافتہ اور طاقتورلوگ انصاف کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی نہ کرتے، یہی وجہ ہے کہ راولپنڈی میں خاوند کے ہاتھوں مرنے والی خاتون نے پہلے خودکشی کرنے کا بیان دیا تاکہ اس کی موت کے بعد اس کے خاندان کو تنگ نہ کیا جائے لیکن بعد میں حقیقت کھل کر سامنے آگئی، یعنی اس سب کا تعلق انسان کے اندر چھپی جہالت کے اندھیرے سے ہے جسے تعلیم کی روشنی بھی ختم نہیں کر سکی۔

میرے لکھنے کا قطعی طور پر یہ مقصد نہیں کہ تمام ساس سسر برے ہوتے ہیں، حالات خراب کرنے میں بہو کا رویہ بھی شامل ہوتا ہے، لیکن مارپیٹ کرنا یا کسی کو جان سے ماردینا کبھی مسئلے کا حل نہیں ہوتا اور معاشرے سے پر تشدد سوچ کے خاتمے کے لیے حکومت کو عملی اقدامات کرنے ہوں گے، جہاں حکومت نےعزت کے نام پر قتل کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے نیا قانون بنایا ہے وہیں خواتین کو تحفظ دینے کیلئے بھی مزید سخت قوانین بنانے چاہئیں۔