04 نومبر ، 2017
امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی جانب سے جاری کی گئی حالیہ دستاویزات میں انکشاف کیا گیا ہے کہ عالمی دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کو بخوبی اندازہ تھا کہ لیبیا میں معمر قذافی کے اقتدار کا خاتمہ شدت پسندوں کے لیے راستے کھول دے گا۔
دوسری جانب القاعدہ رہنما نے عرب حکمرانوں کے خلاف تحریکوں 'عرب بہار' کی حمایت پر قطری ٹی وی کے کردار کی تعریف بھی کی تھی۔
واضح رہے کہ گزشتہ دنوں سی آئی اے نے تقریباً 4 لاکھ 70 ہزار کے قریب خفیہ دستاویز جاری کی تھیں جن کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا کہ یہ مئی 2011 میں ایبٹ آباد میں القاعدہ کے بانی رہنما اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ میں کیے جانے والے آپریشن کے دوران قبضے میں لی گئی تھیں۔
دستاویزات کے مطابق اسامہ کا کہنا تھا کہ لیبیا میں شورش نے جہادیوں کو راستہ فراہم کیا اور افراتفری اور قیادت سے محرومی القاعدہ کے فروغ کے لیے بہترین ثابت ہوگی۔
اسامہ بن لادن نے ’عرب بہار‘ کی حمایت پر قطری ٹی وی کی تعریف بھی کی، تاہم بچوں کے لیے وارننگ دیے بغیر تشدد سے بھرپور مناظر نشر کرنے پر تنقید کی۔
کمپاؤنڈ سے ملنے والی دستاویزات کے مطابق اپنے نظریات سے متعلق اسامہ نے اپنے خاندان کو بتایا کہ یہ ان کے اسکول اور گھر کے ماحول کا اثر تھا، ساتھ ہی انہوں نے اخوان المسلمین سمیت کسی خاص گروپ سے رہنمائی لینے کی تردید بھی کی۔
ایک عرب ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق اسامہ کی بیٹی ایمان نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ائی کو اپنے بہن بھائیوں اور دیگر افراد سے متعلق خط بھیجا جنہیں خفیہ طور پر ایران میں داخل ہونے پر گرفتار کرلیا گیا تھا۔
ایمان نے لکھا کہ وہ کئی بار تہران حکومت سے رہائی کی درخواست کرچکی ہیں کہ ان کا خاندان مجبوراً ایران میں داخل ہوا اور کبھی واپس نہیں آئے گا، تاہم ان کی رہائی کے بجائے ایرانی حکومت، عراق میں ایران کی حامی فورسز اور ملیشیا پر القاعدہ کے حملے بند کرنے کا مطالبہ کررہی ہے۔
اسی طرح القاعدہ کے دو رہنماؤں کی خط و کتابت میں ایرانی انٹیلی جنس سے رابطوں کا بھی ذکر ہے، القاعدہ رہنما الحاج عثمان نےلکھا کہ ایران نے اسامہ کی بیٹی ایمان کی موجودگی سے آگاہ کیا ہے مگر اس بات پر آمادہ نہیں کہ اسامہ کی بیٹی ایران سے سعودی عرب جائے۔
ان دستاویزات کے منظرعام پر آنے کے بعد ایران نے امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ جعلی خبریں پھیلا کر تہران پر دباؤ ڈال رہی ہے۔
گذشتہ دنوں ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے دستاویز میں لگائے جانے والے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر لکھا تھا، ’ایران کے حوالے سے القاعدہ کی منتخب شدہ جعلی دستاویز جاری کرکے نائن الیون میں امریکی اتحادیوں کے کردار کو مٹایا نہیں جاسکتا‘‘۔