پاکستان
23 مئی ، 2015

ایگزیکٹ کی جعلی یونیورسٹیوں کے نمبر بند ہوگئے،نیویارک ٹائمز

ایگزیکٹ کی جعلی یونیورسٹیوں کے نمبر بند ہوگئے،نیویارک ٹائمز

نیویارک..........نیویارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ ایگزیکٹ کا جعلی ڈگری اسکینڈل سامنے لانے کے بعد اس کی جعلی یونیورسٹیوں سے کوئی جواب موصول نہیں ہورہا۔ کمپنی کے دیگر سابق ملازمین نے بتایا کہ ایگزیکٹ جعلی ڈگری کے دھندے سے روزانہ ایک لاکھ ڈالر کماتی تھی۔ایک کےبعد ایک انکشاف ،نیویارک ٹائمز کا ایک اور دھماکا ،ايگزیکٹ کے مزید ملازمین کے انکشافات سامنے لے آيا ۔نیویارک ٹائمز کے نمایندے ڈیکلن والش کی رپورٹ کے مطابق انھوں نے گزشتہ دنوں ایگزیکٹ سے تعلق رکھنے والی ایک سو گیارہ ویب سائٹوں سے رابطہ کیا مگر کسی سیلز ایجنٹ سے رابطہ نہیں ہوسکا۔ڈیکلن والش کے مطابق ایگزیکٹ کے 10 سے زائد سابق ملازمین نے بھی ان سے رابطہ کیا ہے اور مزید معلومات فرام کی ہیں۔سیلز ایجنٹ کے طور پر کام کرنے والے سکندر ریاض نے بتایا کہ وہ ہینک موڈی کا نام استعمال کرتا تھا۔ وہ ہاروے یونیورسٹی اور نکسن یونیورسٹی کی ڈگریاں فروخت کرتا تھا۔ایک اور سابق ملازم احمد نے بتایا کہ اس نے تین مہینے میں تقریبا 5 لاکھ ڈالر کی جعلی ڈگریاں فروخت کیں۔ کمپنی جعلی ڈگریوں کی فروخت سے روزانہ 80 ہزار سے ایک لاکھ ڈالر تک کماتی تھی۔ جعلی ڈگریاں خریدنے والوں میں سے زیادہ تر کا تعلق امریکا سے تھا۔ جو ہائی اسکول ڈپلوما حاصل کرکے فوج میں شامل ہو کرافغانستان اورعراق جانا چاہتے تھے۔ ایگزیکٹ کے ملازمین کو دس پندرہ دن میں ڈگری جاری کرنے کا ٹاسک ملتا تھا۔ایگزیکٹ کے سابق ملازمین کے مطابق جعلی ڈگریوں کی فروخت سے حاصل ہونے والی 20 سے زائد آف شور کمپنیوں کے ذریعے وصول کی جاتی تھی۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق ایسی ہی ایک کمپنی کنیکٹ شفٹ قبرص میں رجسٹرڈ ہے اور ریکارڈ میں اس کے چیف ایگزیکٹو کا نام شعیب شیخ درج ہے۔نیویارک ٹائمز کے مطابق ایگزیکٹ کا جال امریکا میں بھی پھیلا ہوا تھا اورایگزیکٹ نے کیلی فورنیا، کولوراڈو اور ٹیکساس میں میل باکس حاصل کررکھے تھے۔ ایگزیکٹ نے بینک آف امریکا کی فلوریڈا میں 2 برانچوں میں اکاؤنٹ بھی کھول رکھے تھے۔نیویارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ ایگزیکٹ کے فراڈ کا مرکز دبئی میں واقع دفتر تھا اور جعلی ڈگریاں وہیں سے کوریئر کے ذریعے گاہکوں کو بھیجی جاتی تھیں تاہم ایک خلیجی اخبار میں رپورٹ شائع ہونے کے بعد دبئی میں سرگرمیاں محدود کردی گئیں۔

مزید خبریں :