01 جون ، 2015
اسلام آباد.......اٹھارویں اور اکیسویں آئینی ترامیم سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ پارلیمنٹ کو کیسے پتہ چلے گا کہ اس کی حدود کہاں تک ہے؟؟ لگتا ہے ہمارے ملک میں آئین میں ترمیم کیلئے کوئی حدود ہی نہیں۔ اٹھارویں اور اکیسویں آئینی ترامیم سے متعلق درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس پاکستان جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں فل کورٹ نے کی۔ خیبرپختونخواحکومت کے وکیل افتخار گیلانی نے اٹھارویں ترمیم سے متعلق اپنے دلائل مکمل کر لیے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 15جون کے بعد اکیسویں آئینی ترمیم پر دلائل سنیں گے۔ افتخار گیلانی نےدلائل میں کہاکہ 33 ممالک کے آئین میں بنیادی ڈھانچے کا ذکر ہے اور ان ملکوں کےآئین کےبارہ نکات ایک جیسے ہیں، اس پر جسٹس دوست محمد نے استفسار کیا کہ کیا آئین کا آرٹیکل سکس بنیادی ڈھانچے سے متعلق نہیں؟ آئین کی منسوخی سے بچنے کے لیے آرٹیکل سکس میں ترامیم کی گئیں۔ جسٹس دوست محمد نے استفسار کیا کہ کیا پارلیمنٹ کے پاس اختیار ہے کہ ترمیم کے ذریعے کسی کو نجی فوج بنانے کی اجازت دے؟ افتخار گیلانی نے جواب دیا کہ پارلیمنٹ کو بادشاہ سے زیادہ اختیار ہیں، کچھ بھی کر سکتی ہے۔اس پر جسٹس سرمد جلال عثمانی نے ریمارکس دیے کہ سوال یہ ہے کہ کیا پارلیمنٹ بنیادی انسانی حقوق کو معطل کر سکتی ہے؟؟ کیا بنیادی حقوق بنیادی آئینی ڈھانچے کا حصہ ہیں؟ اس پر خیبرپختونخواحکومت کے وکیل افتخار گیلانی کاجواب تھا کہ عدالت خود یہ قرار دے چکی ہے کہ آئین میں ترمیم کےلیے کوئی بنیادی مثال موجود نہیں۔ کیس کی مزیدسماعت منگل کوہوگی اوردرخواست گزارحفیظ پیرزادہ اٹھارویں ترمیم سے متعلق دلائل دیں گے۔