08 جون ، 2015
اسلام آباد.......اسلام آباد کے جوڈیشل مجسٹریٹ نے جعلی ڈگری کیس میں ایگزیکٹ کمپنی کے 17 ملازمین کو 15 جون تک جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کر دیا۔ عدالت کو بتایا گیا کہ ملزمان ایسی امریکی یونیورسٹیوں کی ڈگریاں جاری کرتے تھے جن کا کوئی وجود ہی نہیں۔ جعلی ڈگریوں کے اجراء، فراڈ، دھوکا دہی اور اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت گرفتار کیے گئے ایگزیکٹ کمپنی کے 17 ملازمین کو اسلام آباد کے جوڈیشل مجسٹریٹ رسول بخش میر کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ ایف آئی اے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر لیگل خالد نعیم نے عدالت کو بتایا کہ ملزم بھاری رقوم لے کر ایسی امریکی یونیورسٹیز کی ڈگریاں دیتے تھے جن کا کوئی وجودہی نہیں۔ امریکی محکمہ تعلیم نے متعلقہ یونیورسٹیز کے وجود سے انکار کیا ہے، تمام گرفتار ملزمان ایف آئی آر میں نامزد ہیں، قبضے میں لیے گئے کمپیوٹرز کی فرانزک رپورٹ آنا ابھی باقی ہے۔جوڈیشل مجسٹریٹ نے استفسار کیا کہ کلاسز لیے بغیر ڈگریاں کیسے جاری ہو سکتی ہیں،کیا یہ کوئی آن لائن کورس کراتے تھے؟ایف آئی اے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر لیگل نے بتایا کہ لوگوں سےان کا سی وی لے کر تجربے کی بنیاد پر ڈگری جاری کردی جاتی تھی،اسی اصول کےتحت ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں بھی جاری کی گئیں، ایس ای سی پی میں ایگزیکٹ نے 2006ء میں کمپنی رجسٹر کرائی اور بتایا کہ سافٹ ویئر بنانے کا کام کرتے ہیں مگر اس آئی ٹی کمپنی نے جعلی ڈگریوں کا کام کر کے عالمی سطح پر فراڈ کیا۔ مجسٹریٹ نے ایف آئی اے حکام سے استفسار کیا کہ کمپنی کے ریجنل ہیڈکرنل ریٹائرڈ جمیل کابیان تو لے لیاگیا، گرفتارکیوں نہیں کیا؟ ایف آئی اے حکام نے بتایا کہ کرنل ریٹائرڈ جمیل کابیان 19 مئی کو ریکارڈ کیا،ایف آئی آر اتوار کو درج ہوئی، جو ملزم ملے، انہیں گرفتار کر لیا،باقی بھی پکڑیں گے۔ ملزمان کے وکیل سعد حسن نے کہا کہ ایف آئی اے نے تفتیش میں تعاون کرنے والے کمپنی کے چھوٹے ملازمین کو گرفتار کیا ہے جن کا کمپنی کےفیصلوں سے کوئی تعلق نہیں، ان پر وعدہ معاف گواہ بننے کے لیے دباؤ ڈالا گیا اور انکارپر گرفتارکر لیا گیا۔