23 اگست ، 2015
ڈیلس.....راجہ زاہد اخترخانزادہ..... پاکستان کے صوبہ پنجاب کی اسمبلی سے دو مرتبہ رکن اسمبلی اور امریکی ہارورڈ یونیورسٹی کی سند یافتہ صحافی حمیرا شاہد کا کہنا ہے کہ پاکستان ترقی کے بجائے پستی کی جانب گامزن ہے جس کی بڑی وجہ قول و فعل میں تضاد ہے، پاکستان امریکن ایسوسی ایشن ٹیکساس کی جانب سے ڈیلس کی معروف سیاسی وسماجی شخصیت ڈاکٹر عامر سلیمان کی رہائش گاہ پر منعقدہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی ،اجلاس میں ڈیلس کے دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں نے شرکت کی ۔حمیرا شاہد نے کہا کہ وہ دوبار اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں ا ور ربا سے متعلق انہوں نے جو بل اسمبلی میں پیش کیا اُسمیںانکو ایک بل کے لئے جن پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا وہ انتہائی تکلیف دہ عمل تھا کیونکہ یہ بل پاس ہونے میں چار سال کا عرصہ لگا۔ انہوں نے کہا کہ ذاتی ملاقاتوں میں لوگ اور اسو قت کے وزرا اس بل کی حمایت کرتے مگر جب فلور پر آتے تو اسکی مخالفت کرتے، انہوں نے کہا کہ پاکستان میں قانون، مولوی ،مفتی، بیوکریٹ سیاستدان سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں اور اگر ان میں کوئی صحیح شخص آجائے تو اسکا جینا حرام کردیا جاتا ہے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ اور اسمبلیاں سب کی سب پتلیاں ہیں جنکی ڈور جاگیر داروں ،سرمایہ داروں کے ہاتھ میں ہیںاور وہ پورے ملک کو چلارہے ہیں۔ پاکستان کیپٹل ازم کی بہت ہی گھٹیا کاپی ہے انہوں نے کہا کہ جھوٹ بولنے والے اور بڑی بڑی داڑھیاں رکھنے والوں کو میری شکل دیکھتے ہی ان پر گناہ شروع ہو جاتے ہیں یہ سب ملک سے فراڈ کر رہے ہیں ۔میں کہتی ہوں کہ اس وقت پاکستان میں انقلاب کی ضرورت ہے یہ انقلاب ملک کے نوجوان لیکر آسکتے ہیں۔ اس کے برعکس مغرب کے لوگوں کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہے۔ اس موقع پر پاکستان امریکن ایوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر جاوید اجمل ، سید فیاض حسن ، اقبال حیدر ، راجہ زاہد اختر خانزادہ ،یونس اعجاز اور دیگر نے اجلاس میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ میزبان ڈاکٹر عامر سلیمان نے اس موقع پر کہا کہ اگر کسی چیز کی بنیاد غلط رکھی جائے تو اس طرح کے مسائل ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کمیونٹی رہنمائوں کو چاہیے کہ وہ معاشرے میں ایسی بنیاد ڈالیں جس سے آنے والے نسلوں کو فائدہ ہو یہ نہ ہو کہ روپیہ اور ڈالر کی بنیاد پر کسی کی عزت کی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی صورتحال سے ہمیں سبق حاصل کرنا چاہیے اور ہمیں اب یہ بات سمجھ آجانی چاہیے کہ اگر بنیاد کی پہلی اینٹ ٹیڑھی رکھی جائے اور دو دو آنے کیلئے ضمیر پیچ دیا جائے تو خرابیاں ضرور پید اہوں گی اگر ایسا نہ ہوتا تو ہم بھی 68سال بعدا پنے ملک میں سکون سے بیٹھتے ۔ ڈیلس کمیونٹی اس صورت حال سے سبق سیکھے اور آج یہاں ایک لاکھ سے زائد پاکستانی آباد ہیں اگر یہ بھی اپنی معاشرتی بنیاد ٹیڑھی رکھیں گے تو آئندہ سالوں میں ہمارے پوتے پوتیاں اس طرح ہی سرپکڑ کر بیٹھے ہونگے جس طرح آج ہم بیٹھے ہیں۔