04 ستمبر ، 2015
دمشق.......... شام کی خانہ جنگی نے سوا دو کروڑ افراد کو بے گھر کیا، عالمی عدم توجہی نے پناہ گزینوں کو اس قدر مجبور کردیا کہ وہ محفوظ مستقبل کی تلاش میں جان داوٴ پر لگاکر یورپ پہنچنا چاہتےہیں۔ شام میں خانہ جنگی سے پہلے ملک کی آبادی تقریباً دو کروڑ تھی، شام کی نصف سے زیادہ آبادی ، تقریباً ایک کروڑ بیس لاکھ افراد بے گھر ہیں، 80لاکھ ملک کے اندر دوسرے علاقوں میں ہجرت کرگئے جنہیں ہم آئی ڈی پیز کہتے ہیں، جبکہ 40 لاکھ نے پڑوسی ملکوں میں پناہ لے لی ، جن میں ترکی ، لبنان اور اردن شامل ہیں۔ یورپ میں داخل ہونے والے شامیوں کی تعداد تقریباً ڈھائی لاکھ ہے جو کل متاثرین کا دو فی صد سے بھی کم بنتا ہے، داعش مزید علاقوں پر قابض ہورہی ہے جس سے نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد بڑھے گی، دربدر شامیوں کو یہ اجازت نہیں کہ وہ پڑوسی ملکوں میں قائم یورپی سفارتخانوں میں پناہ کی درخواست دے سکیں ، البتہ وہ کسی طور یورپ پہنچ جائیں تو انہیں قانوناً پناہ مل سکتی ہے ، تاہم اس مقصد کو پانے کےلیے انہیں پہلے غیر قانونی طور پر یورپ تک پہنچنا پڑے گا، جو خطرے سے خالی نہیں اور مہنگا بھی ہے۔ یورپی یونین بیرون ملک پناہ گزینوں سے درخواست قبول کرنے پر غور کررہی ہے لیکن اس صورت میں بھی فقط بیس ہزار افراد استفادہ کرسکیں گے ، یعنی پانچ سو میں سے صرف ایک شامی پناہ حاصل کرسکے گا۔