29 نومبر ، 2015
کراچی…ساگر سہندڑو…شاندار اور تاریخی اہمیت رکھنے والا جنوب مشرقی یورپی ملک یونان گزشتہ چند سالوں سے مالی بحران کا شکار ہے جس کی وجہ سے رواں برس وہ یورپی یونین سے علیحدہ ہوتے ہوتے بچ گیا۔قرضوں میں ڈوبا یونان یورو زون سے بے دخل تو نہیں ہوا لیکن معاشی بحران کی وجہ سے آج یونان کی سماجی زندگی تباہی کے کنارے پر کھڑی ہے۔
معاشی بحران، عالمی مالیاتی اداروں کے بھاری قرض ،بے روزگاری اور بے یقینی صورتحال کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ جہاں یونانی سرمایہ کاری اور کاروبار میں فرق پڑا ہے وہیں یونان کی سماجی زندگی پر بھی منفی اثر پڑے ہیں۔ بے روزگاری اور معاشی بحران کا سب سے زیادہ شکار یونانی خواتین ہوئی ہیں۔
یونانی دارالحکومت ایتھنز کی دی پینشئن یونیورسٹی کی تازہ تحقیق کے مطابق بھوک اور بے روزگاری کے باعث یونانی خواتین جسم فروشی کرنے پر مجبور ہیں۔ تحقیق کرنے والے سوشیالوجی کے پروفیسر گریگوری لاسوزکے مطابق گزشتہ چھہ سالوں کے دوران بے روزگاری، غربت اور بھوک کے باعث یونان میں عصمت فروشی کے کاروبار میں اضافہ ہوا ہے۔
برطانوی اخبار ’ڈیلی میل ‘کے مطابق ایتھنز میں یونان سمیت مشرقی یورپی ممالک کی ہزاروں خواتین سینڈوچ کے بدلے اجنبی مردوں کیساتھ وقت گزارنے کو تیار ہوجاتی ہیں جبکہ کئی لڑکیاں تو سینڈوچ سے کم قیمت کے بدلے اپنے 30 منٹ غیر مردوں کے ساتھ ضائع کرتی ہیں۔معاشی بحران سے پہلے یونان میں غیر یورپی خواتین ایسا کرتی تھیں لیکن اب مقامی خواتین ایسا کرنے پر مجبور ہیں۔
تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق یونان بھر میں 18 ہزار سے زائدایسی جوان لڑکیاں ہیں جو کھانے پینے کی اشیاء کے بدلے اپنا وقت اجنبی مردوں کے ساتھ گزارتی ہیں۔پروفیسر لاسوز کے مطابق روزمرہ کی زندگی میں ضروریات کی چیزوں کو حاصل کرنے اور بھوک ختم کرنے کیلئے 17 سے 20 سال کی لڑکیاں ایسا کرنے پر مجبور ہیں اور یہ سب کچھ معاشی بحران اور بے روزگاری کے باعث ہورہا ہے۔
ایشیائی اور افریقی سرحدوں سے ملحق اس یورپی ملک کی کل آبادی ایک کروڑ 12 لاکھ سے زائد ہے جس میں سے56 لاکھ سے زائد خواتین ہیں جو کل آبادی کا50 اعشاریہ 5 فیصد بنتی ہیں۔ یونان کو فنون لطیفہ کی ماں اور فن تعمیر کا سربراہ بھی کہا جاتا ہے۔ یونانی دیومالائی قصوں اور داستانوں کو پوری دنیا کے ادب میں فوقیت اور اولیت حاصل ہے۔