30 نومبر ، 2015
کراچی… عالیہ کاشف عظیمی…ملک کے سب سے بڑے چینل ’جیو‘کی نیوز کاسٹر رابعہ انعم اپنے دلچسپ لب و لہجے، انداز اور طرزکے سبب سب سے نمایاں نظر آتی ہیں۔ خاص کر جب وہ کسی مہمان سے قومی زبان میں سوالات کرتے کرتے پشتو بولیں لگیں تو باقی اینکرز ان سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ ’جنگ سنڈے میگزین ‘نے اپنی گزشتہ روز کی اشاعت میں ان کا ایک دلچسپ انٹرویو شائع کیا ہے ۔ اپنے قارئین کی دلچسپی کے لئے ہم اس مضمون کے کچھ مختصر اقتباسات ذیل میں شائع کررہے ہیں۔ تفصیلات کے لئے آپ سنڈے میگزین 29نومبر کی اشاعت ملاحظہ کرسکتے ہیں۔
جنگ : آپ کا نام کس نے رکھا اوراپنے خاندان سے متعلق کچھ بتائیں؟
رابعہ : بابا کی خواہش تھی کہ میرا نام انعم ہو اور دادا چاہتے تھے کہ پوتی کا نام رابعہ رکھا جائے تو ان دونوں کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے میرا نام”رابعہ انعم“رکھاگیا۔ میرا تعلق پٹھان فیملی سے ہے ۔ہمارے گھر میں قومی زبان ہی بولی جاتی ہے، پشتو مَیں نے دادی جان کے لیے سیکھی۔
نیوز کاسٹر بننے کا فیصلہ کس کا تھا؟
یہ فیصلہ مکمل طور پر میرا اپنا ہے لیکن اس میں والدین اور بھائیوں کی بھرپور سپورٹ بھی شامل ہے۔ ابّو نے ہر ہر قدم پر معاونت و رہنمائی کی۔
فیلڈ میں کیسے آمد ہوئی؟
کچھ عرصہ ایک اور چینل کی نیوز ڈیسک پر کام کیا۔ساتھ ساتھ خبریں پڑھنے کی بھی پریکٹس کرتی رہی۔2012 میں ملک کے سب سے بڑے نیوز چینل جیو نیوز سے وابستگی کا موقع مل گیا۔یہی میری زندگی کی بہترین اچیومنٹ تھی۔میرے جیو جوائن کرنے کی سب سے زیادہ خوشی میرے بابا کو ہوئی کیوں کہ’ جیو‘ شروع سے اْن کا پسندیدہ چینل ہے۔
جیو جوائن کرنے کا تجربہ کیسا رہا؟
جیو جوائن کرنے سے پہلے مَیں خاصی گومگو کا شکار تھی۔ کئی لوگوں نے ڈرانے کی کوشش کی کہ بہت بڑا چینل ہے،سینئرز تمہیں کبھی بھی آگے نہیں بڑھنے دیں گے،تمہارے لیے جگہ بنانا خاصا مشکل ہوگامگرسب باتیں جھوٹی ہی ثابت ہوئیں۔ جتنا سیکھنے اور کام کرنے کا موقع مجھے جیو میں ملا،کہیں اور ملنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
خود کو پانچ سال بعد کہاں دیکھ رہی ہیں؟
پاکستان کی بہترین شو ہوسٹ کے روپ میں۔ اس وقت دنیا بھر میں اوپرا وینفری اورڈیگینرز ایلن کو بہترین ہوسٹ شو تسلیم کیا جاتا ہے۔ میری بھی یہی خواہش ہے کہ میں پاکستان کی اوپرا یا ایلن کہلاؤں۔
شادی کاکب تک ارادہ ہے اور کس کی پسند سے کریں گی؟
انشااللہ اگلے دو برس تک ہوجائے گی۔اہلِ خانہ کا خیال ہے کہ شادی میری پسند سے ہونی چاہیے لیکن میری خواہش ہے کہ میری اور گھر والوں کی مشترکہ پسندہو۔ یہ طے ہے کہ میں کسی پرنس چارمنگ کی بجائے سمجھ دار انسان کو ترجیح دوں گی۔
آپ کی دلکش مسکراہٹ کا راز کیا ہے؟
یہ راز ہر حال میں اللہ کا شْکر ادا کرنے اور خوش رہنے میں پوشیدہ ہے۔اور ہاں،مَیں منفی روّیوں، باتوں سے بھی بہت دْور رہتی ہوں۔
بعض نیوز اینکرز کی توجّہ بلیٹن سے زیادہ خود پر ہوتی ہے؟ اس حوالے سے کیا کہیں گی؟
میں سمجھتی ہوں کہ شخصیت اور بلیٹن دونوں ہی کو متوازن رکھنا چاہیے۔
جب جیو کو عارضی طور پر بند کردیا گیا تھا، تو کیا آپ نے کسی دوسرے چینل پر جانے کا سوچا؟
جیو کی نشریات عارضی طور پر بند ہونے سے قبل ،ایک چینل سے آفر آئی تھی لیکن مَیں بْرے وقت میں ساتھ چھوڑنے کی قائل نہیں،اسی لیے نشریات معطل ہونے کے بعد بھی آفر قبول نہیں کی۔
بہ ظاہر تو ناظرین کو نیوز اینکر کی زندگی بڑی پْرکشش دکھائی دیتی ہے، تو کیا حقیقتاً بھی ایسا ہی ہے؟
پہلی بات تو یہ کہ کئی کئی گھنٹے بیٹھنا اور مسلسل بولنا کوئی آسان کام نہیں اور پھر ایک نیوز اینکر کی ذاتی زندگی نہ ہونے کے برابر ہی رہ جاتی ہے۔
آپ خوش شکل اور مترنم آواز کی مالک ہیں تو کیا کبھی ڈراموں یا فلموں میں کام کی آفر ہوئی اور اگر ہوئی تو کیا قبول کرلیں گی؟
مجھے ایک فلم میں صحافی کے کردار کی آفر ہوئی تھی لیکن تب میں ذہنی طور پر فلموں میں کام کے لیے آمادہ نہ تھی۔ تاہم، اب اگر کبھی کوئی اچھا جرنلسٹ کا کردار آفر ہوا تو شاید کر لوں۔مگر یہ طے ہے کہ ڈراموں میں ہرگز کام نہیں کروں گی۔
کھانا پکانے، سینے پرونے کا شوق ہے؟
امّی نے مجھے وہ سب کچھ سکھایا ہے، جو ایک گھریلو لڑکی کے لیے ضروری ہے۔مثلاً سلائی کڑھائی، سینا پرونا، کھانا پکانا اور سیلف گرومنگ وغیرہ۔ میں اچھی خاصی گھرداری کرلیتی ہوں،خاص طور پر گول روٹی بنانا تو میرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔
پروفیشنل لائف میں کبھی کوئی ایسا ٹاسک ملا جو بے حد مشکل ہو؟
آرمی پبلک اسکول،پشاور کے حوالے سے متعلق جو براہِ راست نشریات ہوئیں،وہ میرے لیے ایک بڑا چیلنج تھا۔اگرچہ پوری ٹرانسمیشن مَیں روتی ہی رہی لیکن جو میری دِلی کیفیت تھی، وہ تو بیان سے بھی باہر ہے۔
آپ خاصی خوش لباس ہیں،تو اپنی پسند سے ملبوسات کا انتخاب کرتی ہیں یا پھر کسی سے مشورہ لیتی ہیں؟
ج : ملبوسات کے انتخاب میں کسی سے مشورہ نہیں لیتی۔میری تنخواہ کا ایک بڑا حصّہ اسی شوق کی نذر ہوجاتا ہے۔بہ قول امّی ”گھر میں کمرے ختم ہوجائیں گے، الماریاں کم پڑ جائیں گی، لیکن رابعہ کپڑے خریدنے سے باز نہیں ا?ئے گی۔“
شاپنگ یا پھر کسی اور کام کے لیے گھر سے نکلتی ہیں تو کیا لوگ پہچان لیتے ہیں اور پھر عموماً اْن کے ریمارکس کیا ہوتے ہیں؟
جی بالکل،پہچان لیتے ہیں اور پھر یہی ریمارکس ہوتے ہیں ”آپ دیکھنے میں تو کم عْمرہیں لیکن اسکرین پر بڑی کیوں دکھائی دیتی ہیں؟“
اگر شادی کے بعد سسرال والے یہ شوق جاری نہ رکھنے دیں تو کیا کریں گی؟
اول تو کسی ایسی فیملی میں شادی ہی نہیں کروں گی جو شرائط پر رشتہ قائم کرنا چاہیں۔اور اگر کبھی زندگی کے کسی موڑ پر مجھے یہ محسوس ہوا کہ میں یا پھر میری فیملی متاثر ہورہے ہیں، تو ایک منٹ ضائع کیے بغیرملازمت چھوڑ دوں گی۔
رابعہ انعم کے اس دلچسپ انٹرویو کی مزید تفصیلات اتوار 30 نومبر2015، کے جنگ سنڈے میگزین “ میں ملا خط کی جاسکتی ہیں۔