21 دسمبر ، 2015
کراچی......سپریم کورٹ نے سندھ میں وکلاء کے قتل کے ازخود نوٹس پر پولیس کی جانب سے دوبارہ کھولے گئے مقدمات کی تفتیشی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہارکیا ہے۔عدالت نے صوبائی سیکریٹری داخلہ کو وکلاء کے قانونی ورثاء کے نام اور معاوضے کے چیک سمیت کل عدالت میں طلب کرلیا۔
سپریم کورٹ کی لارجر بینچ میں وکلاء کے قتل سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت ہوئی،جسٹس امیرہانی مسلم کی سربراہی میں لارجر بنچ نے سندھ بھر میں وکلا کےقتل کی پولیس تفتیش پر عدم اطمینان کا اظہارکیا۔پولیس رپورٹ میں بتایا گیا کہ کراچی میں 44 وکلاء قتل ہوئے، 14 مقدمات کے چالان ہوئے اور 22 کو اے کلاس کیا گیا ،جبکہ سندھ بھر میں 53 وکلاء کے قتل میں 19 کے چالان پیش کئے جاسکے۔
رپورٹ میں بتایا گیا سپریم کورٹ کے حکم پر وکلاء کے تمام اے کلاس مقدمات دوبارہ کھول دئیے گئے ۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ سندھ بھر میں سال 2000 سے 2015 کے دوران 17 ہزار 254 افراد قتل ہوئے جس میںصرف کراچی میں مارے جانے والوں کی تعداد 15 ہزار 192 ہے۔قتل کے 10 ہزار818 مقدمات کو اے کلاس کردیا گیا۔ جس میں کراچی میں داخل دفتر کیے جانے والے مقدمات کی تعداد 8 ہزار808 ہے۔سپریم کورٹ کا شہر میں لگے سی سی ٹی وی کیمروں مانیٹرنگ نظام پربھی استفسارکیا۔
عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ پولیس کیوں تفتیش کو آگے نہیں بڑھاتی۔تفتیشی آفیسر کیا تفتیش کرتا ہے اس کی مکمل ڈائری ہوتی ہے، وہ پیش کریں۔ عدالت نے سیکریٹری داخلہ سندھ کو وکلا کے معاوضے کے چیکس کے ساتھ کل طلب کرلیا اور پروسیکیوٹرجنرل شہادت اعوان،آئی جی سندھ اور ایڈیشنل آئی جی کراچی کو وکلا قتل کیس میںتفتیش کی مکمل اور جامع رپورٹ ایک ماہ میں پیش کرنے کا حکم دیا۔