03 جنوری ، 2016
نیویارک........امریکی میڈیانے اپنی رپورٹ میں کہاہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ پاکستان کے بعد پاک بھارت مذاکرات کی بحالی کے امکانات روشن ہوگئے ہیں ۔
بھارت کو اپنے مستقبل کی خاطر تعلقات بہتر بنانا ہوں گے ۔تجارت اور دہشتگردی پر دونوں ممالک تعمیری بات چیت کر سکتے ہیں۔امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے 25 دسمبر 2015ء کو وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ پاکستان کے حوالے سے لکھا ہے کہ پاکستانی ہم منصب نواز شریف سے مودی کی ملاقات نے خارجہ سیکرٹری سطح پر بات چیت کی راہ ہموار کی اور اس کی بدولت تعطل کا شکار مذاکرات کی بحالی کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔
پاکستان اور بھارت ایک اور کوشش کے زیر عنوان اپنے ایڈیٹوریل میں نیویارک ٹائمز نے لکھا کہ جب نواز شریف اور نریندر مودی لاہور ایئرپورٹ سے ہاتھ میں ہاتھ میں ڈالے باہر آ رہے تھے تو یوں لگ رہا تھا کہ علاقائی استحکام کیلئے خطرہ بنے ہوئے کشیدہ تعلقات کے حامل دو ممالک کے سربراہان نہیں بلکہ دو قریبی دوست اکٹھے آ رہے ہیں.
اس دورے کی وجوہات کے حوالے سے نیویارک ٹائمز نے کہاکہ لگتا ہے کہ مودی نے بالآخر یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ بہتر تعلقات ضروری ہیں اور اس سلسلے میں ان کی ذاتی دلچسپی بھی درکار ہے۔ وہ اس امر کا ادراک بھی کر چکے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات انہیں اپنے ملکی عزائم یعنی بھارت کو اقتصادی قوت بنانے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتے ہیں ۔
کیونکہ مودی اپنے انتخابی وعدہ کو تکمیل تک پہنچانے کیلئے کوئی خاص پیش رفت نہیں دکھا سکے اور وہ بھارتی متوسط طبقہ کی تنقید کے نشانہ پر ہیں۔ دوسری جانب ا ن کی حکومت اور سیاسی جماعت کے ارکان نہ صرف فرقہ ورانہ تناؤ کو ہوا دے رہے ہیں بلکہ عالمی سطح پر مودی کا تشخص بھی بگاڑ رہے ہیں۔
کونسل برائے خارجہ تعلقات کی ایک حالیہ رپورٹ میں اس امر کی نشاندہی کی گئی ہے کہ مارکیٹ اصلاحات کے بغیر بھارت بین الاقوامی تجارت میں آگے نہیں بڑھ سکتا اور پاکستان کے ساتھ تنازعہ کا خطرہ بھارت کو مزید نیچے لے جائے گا۔ مزید برآں رپورٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ بھارت کو اپنے مستقبل کی خاطر تعلقات بہتر بنانا ہوں گے۔
ایک اور اخبار پٹزبرگ پوسٹ گزیٹ نے اپنے اداریہ میں نواز شریف اور مودی کے دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کی بحالی کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ممالک جوہری طاقتیں ہیں اور 1947ء سے کشمیر کے متنازعہ علاقہ کے باعث ان کے درمیان کشیدگی جاری ہے اس لیے اسلحہ کے بین الاقوامی تاجروں اورشدت پسندوں کے علاوہ سب لوگ دونوں ممالک کو ساتھ دیکھنا چاہتے ہیں۔